Ghar Ki Barbadi Ki Dastan
گھر کی بربادی کی داستان

ہجرتی پرندوں کی پناہ گاہ خُشک پڑی ہے اور چراگاہیں بنجرہوچکی ہیں۔ جہاں چار نسلیں پانی سے بھرے ایکڑوں پر پھیلے پانی کے ذخیرے کو دیکھتے گزریں وہاں یہ جھیل اب کیچڑ سے بھرے جوہڑ سے زیادہ کچھ زیادہ نہیں بچی۔ 1913 میں چُونے اور پتھر سے تعمیر ہونے والا یہ ڈیم کسی اور مُلک میں ہوتا تو اسے قومی ورثہ قرار دیا جا چُکا ہوتا لیکن پاکستان کے سب سے پُرانےنمل ڈیم کی جھیل اب اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔
سردار لہنہ سنگھ کی انجینیئرنگ کے شاہکار میانوالی اور تلہ گنگ کی سرحد پر تنگ پہاڑی درے پر بنے اس 91 فُٹ بلند ڈیم کا افتتاح گورنر پنجاب مائیکل اوڈائر نے 1913 میں کیا۔ نمل جھیل میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش 630 ملیئن کیوبک فُٹ تھی۔ اس سے 12 کلومیٹر طویل نہر نکلا کر 8 ہزار ایکڑ سے زیادہ رقبہ سیراب کیا گیا۔ جھیل کے مشرقی طرف ایک ڈاک بنگلہ بھی بنایا گیا جو افسرانِ بالا کے لیے ریسٹ ہاوس بھی تھا۔
تاہم مٹی سے بھرنے کی وجہ سے اب اس جھیل کی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہے۔ جھیل خُشک ہونے سے نہ صرف علاقے میں زیرِزمین پانی کی سطح تیزی سے نیچے جانا شروع ہوگئی ہے بلکہ آبی حیات کا بھی صفایا ہوگیا ہے۔ پرندوں کے مساکن تباہ ہوچُکے۔ سوسال قدیم یہ ویٹ لینڈ اس وقت تباہی سے دوچار ہے۔
اس تاریخی، سیاحتی اور ماحولیاتی اہمیت کی جھیل کی بحالی ایک قومی فریضہ ہے۔
1- سب سے ضروری کام ڈیم کے سپل وے پر لگے بند دروازوں کی مرمت اور بحالی ہے تاکہ جھیل کے تین ہزار کنال رقبے کے اوپر پانی کی ایک کم سے کم مقدار کو ہر وقت برقرار رکھا جاسکے۔ اس سے نہ صرف زیرِ زمین پانی کی سطح بُلند ہوگی بلکہ جھیل کے اطراف کی چراگاہیں بھی آباد ہوں گی جہاں کسی زمانے میں لوگ مویشی چراتے تھے۔ مچھلیوں، آبی جانداروں اور پرندوں کے مساکن بحال ہوں گے۔
2- دوسرا اہم کام جھیل سے مٹی کی صفائی کرکے اس کی بحالی ہے جس کے لئے اربن یونٹ پنجاب نے تین چار سال سے پراجیکٹ بناکر رکھا ہوا ہے جو کہ فنڈز ملنے کا انتظار کررہاہے۔ تاہم ساری جھیل سے مٹی نکالنا اور پھر اس کو سنبھالنا ایک بہت مشکل اور مہنگا کام ہے۔ اربن یونٹ کے نمل جھیل بحالی منصوبے کی لاگت 317.72 ملیئن روپے تھی۔
3- تیسرا کام ڈیم کی موجودہ لوکیشن سے تقریباً تین میل نیچے انہی پہاڑوں میں مناسب جگہ پر ایک نئے ڈیم کی تعمیر ہے جو کہ سب سے بہترین آپشن ہوسکتی ہے۔ اس پر محکمہ آب پاشی پنجاب کچھ ابتدائی کام اور سٹڈی کر بھی چُکا ہے لیکن ابھی تک عملی طور پر اس جانب مزید کوئی پیش قدمی نہیں ہوئی۔
4- چوتھا آپشن گھبیر نالا پر زیرتعمیر ڈیم کی جھیل سے پانی سپل کرکے ترپی نالے میں ڈالنا ہے جو کہ آگے جاکر نمل جھیل میں گرتا ہے۔ اس جھیل میں دو بڑے نالے آکر گرتے ہیں۔ ایک گولڑ نالا ہے جو 50 میل دور احمد ندیم قاسمی کے گاؤں انگہ سے آتا ہے اور دوسرا ترپی نالا ہے جو لاوہ سے آتا ہے۔ اس منصوبے سے تلہ گنگ کی تحصیل لاوہ کو پینے کا پانی بھی ملے گا۔
افسوس کہ انگریز نے آج سے سوسال پہلے اس دور دراز بارانی علاقے کی خوب صورتی دیکھتے ہوئے جس طرح توجہ دی تھی، اس انداز میں پاکستان بننے کے بعد کسی حکومت نے نہیں دی۔ وزیراعظم پاکستان اور وزیرِ اعلیٰ پنجاب سے اس تاریخی ویٹ لینڈ کی بحالی کے لیے خصوصی توجہ کی درخواست ہے۔ ماحولیات سے متعلقہ غیرسرکاری تنظموں کو بھی متوجہ ہونے کی ضرورت ہے۔ رہے مقامی افراد تو وہ اس سلسلے میں ایک بھرپور تحریک چلا رہے ہیں کیونکہ اس جھیل کی بحالی سے ان کی روزی روٹی وابستہ ہے۔

