Thursday, 10 October 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zafar Iqbal Wattoo
  4. Danda Peer Aye Shuf Shuf

Danda Peer Aye Shuf Shuf

ڈنڈا پیر اے شُف شُف

کل کے سفر میں ایک جگہ نماز کے لئے رکے۔ میں وضو کر رہا تھا کہ پاس ہی ایک کار آکر رکی اور اس کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھے صاحب جلدی سے کار میں سے اترے اور تقریباً بھاگتے ہوئے وضو والی جگہ پر آئے۔ میرا خیال تھا کہ ان کیُ نماز جارہی ہے لیکن نماز میں تو ابھی کافی وقت تھا۔

خیر انہوں نے کھڑے کھڑے وضو خانے کی ایک ٹوٹی کھولی، ہاتھ دھوئے، غُڑاچ غُڑاچ کی زوردار آوازیں نکالتے ہوئے ایک دو کلیاں کیں اور ٹوٹی آدھ کھلی چھوڑتے ہوئے واپس گاڑی کی طرف بھاگے اور گاڑی روانہ ہوگئی۔ میں نے اُٹھ کر ان کی آدھ کھلی ٹوٹی بند کی اور مسجد کے اندر آگیا جہاں خالی مسجد کے اندر پنکھا چل رہا تھا۔

یہاں سے آگے بڑھے تو مغرب کے وقت ایک اجڑے پٹرول پمپ کی مسجد پر بریک لگائی۔ یہ ایک ویران جگہ تھی مگر مسجد کے وضو خانوں میں پانی تھا۔ میں نے نماز شروع کی تو ایک اور صاحب میرے بعد مسجد میں جلدی سے داخل ہوئے، ہاتھ کے ایک اشارے سے مسجد کے پاور بورڈ کے سارے بٹن دبائے تاکہ ایک آدمی کے لئے ساری لائٹیں اور پنکھے چل سکیں اور پھر اتنی ہی جلدی سے نماز مکمل کرکے بغیر کسی لائٹ یا پنکھے کو سوئچ آف کئے گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہو گئے۔

گاوؔں محلے کی مسجد میں تو کوئی نا کوئی بابا بیٹھا ہوتا ہے جس کے ذمے اس طرح کی ساری زائد لائٹیں اور پنکھے بند کرنا اور ایسی حرکتوں پر بندوں کو خوار کرنا ہوتا ہے لیکن اس ویران جگہ پر پتہ نہیں کون لائٹوں اور پنکھوں کےسوئچ آن کرتا ہوگا۔ موٹروے کے سروس ایریا کی مساجد میں بھی اکثر لوگ پنکھے آن کر لیتے ہیں لیکن نماز پڑھنے کے بعد انہیں آف کئے بغیر ہی روانہ ہوجاتے ہیں۔

ہمارے دوست خواجہ مظہر صدیقی بتاتے ہیں کہ ایک سرکاری اسکول میں تربیتی سیشن کے لیے جانا ہوا۔ مرکزی دروازے سے آڈیٹوریم تک راستے میں کئی کلاس روم آئے۔ ہر کلاس روم میں پنکھے چل رہے تھے جبکہ طلبہ فیسٹیول میں شرکت کے لیے گراؤنڈ میں یا سٹالز پر موجود تھے۔ میں منتظمین سے نظریں چرا کر ہر کلاس روم کی لائٹیں اور پنکھے بند کرتے ہوئے آڈیٹوریم ٹک پہنچا۔ مجھے اپنے اس عمل سے دلی خوشی ہوئی۔

اجتماعی وسائل ہم سب کے برابر استعمال کے لئے ہوتے ہیں۔ اگر ہم ان کا اسراف کریں گے توکئی دوسرے لوگوں کا استحصال کر رہے ہوتے ہیں اور وسائل کا ضیاع الگ سے ہوتا ہے۔ شاید ہماری اجتماعی سوچ ہی زوال کا شکار ہو چکی ہے۔

ہم میں سے اکثر لوگ سسٹم کی ناکامی اور حکمرانوں کی خرابیوں پر نوحہ کناں رہتے ہیں حالانکہ ہمارے اپنے رویے بھی بہت شاہی ہیں۔ ہم بنا سختی کے کبھی بھی قوانین پر عمل نہیں کرتے۔

یہ رویے تربیت اور سسٹم سے مضبوط ہوتے ہیں۔ بات تربیت اور سسٹم سے ہی شروع ہوتی ہے اور اسی پر ختم ہوتی ہے۔ اگرچہ انفرادی عمل اِکا دُکا ہی ہوتے ہیں لیکن ان کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے۔

فی الحال تو ہمارے ہاں"ڈنڈا پیر اے شُف شُف"۔

Check Also

Uzr e Gunah Badtar Az Gunah?

By Mojahid Mirza