Bhola Canteen
بھولا کینٹین

ہمارے دور طالب علمی (1991-96) میں یو ای ٹی لہور میں کینٹین کا جال بچھا ہوا تھا جن کا دارلخلافہ "بھولا" کینٹین ہوا کرتی تھی جو کہ ہمارے یونیورسٹی کے پونے چھ سالہ دور میں ایک منٹ کے لئے بھی بند نہ ہوئی سوائے ان دنوں کے جب کسی دنگے فساد کی وجہ سے یونیورسٹی یا اسٹوڈنٹس ہاسٹلز کو بند کرنا پڑا۔ ان دنوں کے علاوہ یہ کینٹین 24/7 کے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے عید کے دنوں میں بھی کھلی رہتی۔ اس کا چایئنیز پلاؤ اور دودھ پتی بہت مقبول تھی۔
بھولا کینٹین پر "چائئنیز پلاؤ " کی "سپلی" ان لمیٹیڈ ملتی تھی۔ ایک دفعہ ہمارے ایک ساتھی نے جب ساتویں دفعہ سپلی منگوائی تو مسٹر بھولا نے سروس بوائے کے ہاتھ پیغام بجھوایا کہ "نیازی صاحب۔ چاولوں کی دیگ ادھر ہی بھجوا دیتے ہیں۔ جب آپ کا پیٹ بھر جائے تو پھر باقی گاہکوں کو کھلائیں گے"۔ طالب علموں اور مسٹر بھولا میں اس طرح کی بے تکلفی عام تھی۔
پاکستان انجنیئرنگ کونسل کی گورننگ باڈی کی الیکشن مہم کے سلسلے میں ابھی اس اگست کے پہلے ہفتے میں UET لہور جانا ہوا تو ایک خوش گوار حیرت سے واسطہ پڑا۔ ہم تین دوست لایئبریری چوک سے سول ڈیپارٹمنٹ کی طرف پیدل جارہے تھے جب ہمارے ساتھ ایک موٹر سائیکل آکر رک گئی اور "بھولا" کینٹین کے ہمارے زمانے کے مینیجر کم کیشئر نے جو کہ اب عمر رسیدہ ہو چکا ہے نے موٹر سائیکل سے اتر کر ہمیں جپھی ڈال دی۔ ہمارے ساتھ چلنے والے گورننگ باڈی کے امیدوار کا تو "تراہ" ہی نکل گیا۔ وہ سمجھے یہ صاحب کسی پرانے ادھار کا حساب کتاب بے باق کرنے کے لئے گھیرا ڈال رہے ہیں تاکہ ہم بھاگ نہ سکیں۔ جب یقین آگیا کہ وہ پرانی دوستی کے ہاتھوں مغلوب ہو کر جپھی ڈال رہے ہیں تو ہم نے بھی "گھٹ" کر جپھی ڈال دی۔ آخر کو پرانے شناسا تھے۔
بھولا کینٹین موجودہ شاپنگ سنٹر والی جگہ پر ہوتی تھی اور اس کے باہر ایک طرف زبیر ہال کی دیوار تک، دوسری طرف نیو ہال کے سامنے والی سڑک تک اور تیسری طرف فٹ گراونڈ والی سڑک اور پیچھے ڈسپنسری تک میز کرسیاں لگی ہوتیں۔ انڈین فلموں کے سدا بہار love سانگ فل آواز میں چل رہے ہوتے اور سردیوں کی یخ بستہ دھند بھری راتوں میں بھی چادریں اوڑھے سٹوڈنٹ کرسیوں پر براجمان ہوتے۔ دودھ پتیاں چل رہی ہوتیں۔ پاکستان کے سیاسی سماجی مسائل کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے موضوعات پر بات ہورہی ہوتی۔
بھولا کینٹین کی ایک مشہور زمانہ ڈِش سپئیر پارٹس تھی۔ یہ چکن کے ان حصوں کا قورمہ ہوتا تھا جو باقی ڈشوں میں استعمال نہیں ہو سکتے تھے۔ یہ ایک سستی ڈِش ہوتی تھی۔ ایک دفعہ کھانے کے بعد ہاتھ صاف کرنے کے لئے تولیہ منگوایا۔ (اس وقت ٹشو پیپر والی بدعت تعلیمی اداروں تک نہیں پہنچی تھی)۔ تو وہ بہت میلا تھا۔ مسٹر بھولا سے شکایت کی تو اس نے بھولا سا منہ بنا کر جواب دیا کہ "سر سینکڑوں سٹوڈنٹ اس سے ہاتھ پونچھ چکے ہیں۔ ابھی تک تو کسی نے شکایت نہیں کی"۔

