Bare Pani Phir Arahe Hain
بڑے پانی پھر آ رہے ہیں
سنہ 2022 کے مون سون کو سیلابوں کی ماں کہا جاتا ہے لیکن موسمی سائنسدان اور ویب سائٹس اب یہ سوچنا شروع ہوگئے ہیں کہ سالِ رواں کے مون سون کو کیا نام دیں گے۔ 2024 کا موسم حیران کُن حد تک سال 2022 کے موسم کو دُہراتا ہوا نظر آرہا ہے۔
اس سال بھی مئی کے پہلے ہفتے سے ملک میں گرمی کی شدید لہر شروع ہونے کی پیش گوئی ہے جو کہ مئی کا پورا مہینہ جاری رہے گی۔ انڈین گجرات سے پاکستان میں داخل ہونے والی یہ لہر ساحلی پٹی بشمول کراچی کے ساتھ ساتھ تھراور چولستان سے ہوتی پنجاب تک پہنچے گی۔
یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے سنہ 2022 میں ملک میں پہلے ہیٹ ویو (گرمی کی شدید لہر) چلی جس سے نہ صرف چولستان اور ڈیرہ بگٹی میں گرمی اور پیاس کی شدت سے جانوروں کی اموات ہوئیں بلکہ کئی انسانی جانیں بھی ضائع ہوئیں۔
اس کے بعد جون کے وسط میں مون سون اینٹری ڈالنے کی پیش گوئی ہے جوکہ جولائی اگست میں شدت اختیار کرتے ہوئے ستمبر تک چلے گی۔ عالمی موسمیاتی ادارے (WMO) نے کل ہی رپورٹ جاری کی ہے کہ اب تک کا مون سون کا موسمی رجحان سنہ 2022 کے مون سون سے بہت ہی حیران کُن حد تک مشابہت رکھتا ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ شدت ہونے کا امکان ہے۔ اِنڈیا میں بھی اس سال مون سون کی شدت اوسط سے زیادہ رہنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔
دوسری اہم تبدیلی مغربی ہواوں کے نظام میں تاخیر ہونا ہے۔ اس سال پاکستان کے شمالی علاقوں میں جنوری تک تو برف باری ہی نہیں ہوئی اور اب فروری سے شروع ہونے والی برف بارش اور بارش اپریل تک چلتی رہی ہیں۔
مغربی ہواوں کے تاخیر سے پہنچنے کی وجہ سے بادلوں کی کڑک اور گرج، آسمانی بجلی کا گرنا، شدید ژالہ باری، کم وقت میں تیز بارش ہونا، تیر رفتار جھکڑ، لینڈ سلائیڈنگ اور چھوٹے چھوٹے فاصلوں پر بارش اور خُشکی کے وقفے آرہے ہیں کیونکہ فروری مارچ میں ان ہواؤں کے پہنچنے تک آب ہوا گرم ہونا شروع ہو چکی تھی۔
عالمی دجالی نظام کی گلوبل وارمنگ کی تمام تر چُھومنتر کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا پچھلے سات آٹھ سال سے سرد شمسی سائیکل میں داخل ہوچکی ہے جہاں اوسط درجہ حرارت کم ہورہے ہیں جوکہ عام طور پر خُشک سمجھے جانے والے علاقوں میں بھی زیادہ بارش برسانے کا باعث بن رہے ہیں جیسے سعودی عرب، دُبئی، عمان، افغانستان اور بلوچستان وغیرہ۔
ان بدلتے حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمیں اپنے آپ کو بدلتے موسموں کے ساتھ ڈھالنا ہوگا، موسم کے بارے علم میں اضافہ کرنا ہوگا اور سب سے اہم کہ وقت سے پہلے تیاری کرلینی ہوگی۔
جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ہم خطرے کو وقت سے کافی پہلے بھانپ سکتے ہیں اور دریاؤں ندی نالوں کے ارد گرد سیلابی علاقوں کی حدود کی بہت درست طور پر پیش گوئی کرسکتے ہیں جس سے کئی انسانی جانیں اور اثاثہ جات بچائے جاسکتے ہیں۔
موسم کے بدلتے تیور کو سامنے رکھتے ہوئے ہی نئی بستیاں، سڑکیں اور مستقبل کے دیگر ترقیاتی کام اس طرح ترتیب دیے جائیں کہ ہم موسمیاتی تبدیلی کو زیادہ سے زیادہ اپنے حق میں استعمال کر سکیں۔ لہذا ہمیں پرانی سوچ سے نکل کر اپنے آپ کو جلد از جلد نئے ماحول میں ڈھالنا ہوگا۔
موسمیاتی تبدیلی اور بڑے سیلاب جو اس وقت صرف دریائے سندھ کے ڈیلٹا کے لئے بہتر نظر آرہے ہیں، مستقبل میں پورے ملک کے لئے بہتر ثابت ہوسکتے ہیں اگر ہم دریاؤں کو ان کے قدرتی راستے واپس کردیں۔
یقین مانیں بدلتے موسم آپ کے ملک کے خشک علاقوں کو بہت پانی دینے والے ہیں جو کبھی پانی کے لئے ترستے تھے۔ اس سال مون سون میں ڈیرہ وال، جنوبی پنجاب، نصیرآباد ڈویژن اور دریائے سندھ کے کچے کے علاقے والے احتیاط کریں۔۔