Bahao (2)
بہاؤ
کیا یہ ممکن ہے کہ ایک گرم رات کو آپ سائیڈ ٹیبل پر پڑے گلاس کو پانی پینے کے لئے ہاتھ لگائیں اور گلاس کی ٹھنڈک کے نشان سے یہ احساس ہو کہ بیرونی حصے میں پانی کی ٹھنڈ یا نمی وہاں محسوس نہیں ہوئی، جہاں پہلے ہوا کرتی تھی۔ جب آپ نے پانی پیا ہی نہیں تھا تو پھر یہ گلاس میں پانی کیوں کم ہوگیا ہے۔ آپ دس سال تک اس بات کی تحقیق میں گزار دیں اور پھر یہ "کیوں" کی جستجو ہی آپ سے اردو زبان کے ایک شاہکار ناول کی تخلیق کروا دے۔
"بہاؤ" اردو زبان میں ماحولیاتی تبدیلیوں پر لکھا جانے والا وہ ناول ہے جسے ابھی تک ماحولیات کی بجائے صرف وادئی سندھ کی تہذیب کے حوالے سے پڑھا اور سمجھا گیا ہے۔ یہ مستنصر حسین تارڑ صاحب کی وہ تخلیق ہے جو ان کی بطور ناول نگار پہچان بنی لیکن ان کا اصل کمال یہ ہے کہ آج سے تیس پینتیس سال پہلے گلاس میں پانی کم ہونے کے ایک چھوٹے سے اشارے کو سمجھ کر انہوں ماحولیاتی تبدیلیوں پر اس وقت ایک شاہکار ناول لکھ ڈالا کہ جب ملک میں ماحولیات سے متعلق تشویش صرف ایک چھوٹی سی انجنئیرنگ کمیونٹی تک محدود تھی۔
ناول کا آغاز ہی ایک پرندے کی چولستان میں زندگی کی طرف اڑان سے ہوتا ہے جس کے اپنے علاقے میں پانی ختم ہوچکا۔ صحرا نے پھیل کر سبزے کو کھا لیا اور اب ہر طرف موت ہی موت ہے اور جان بچانے کے لئے یہ پرندہ اب پانی ڈھونڈتا ہے اور اسی تگ ودو میں جب اس ہمت جواب دینے کے قریب ہوتی ہے تو وہ دریائے گھاگرا کے کنارے ایک بے نام بستی کی خشک ہوتی جا رہی جھیل کے سراب میں زمین پر جا گرتا ہے۔ جہاں اس پہلے اور بھی کئی پرندے مرے پڑے ہوتے ہیں۔
وہاں بیٹھی ناول کی ہیروئن پاروشنی اسے ایک ہاتھ میں اٹھا کر اس کی کھلی چونچ میں پانی ٹپکانے ہوئے کہتی ہے کہ "تم بھی اس جھیل پر مرنے کے لئے آگئے ہو"۔ یعنی بستی کے لوگ دور دراز سے اڑ کر اس جھیل پر آنے والے پیاسے پرندوں کو روز مرتے ہوئے دیکھ رہے ہوتے ہیں لیکن ان کا دھیان اس طرف نہیں جا رہا ہوتا کہ آس پاس کے علاقوں میں پانی ختم ہونے کی وجہ سے یہ پرندے ادھر دھڑا دھڑ پیاسے آکر گرتے ہیں تو ایک دن ہمارے علاقے میں دریائے گھاگرا (ہاکڑہ، سرسوتی) کا بھی پانی خشک ہوسکتا ہے۔
اس سے اگلے حصے میں گلیشئیرز سے پانی کے زور سے ٹوٹ کی علیحدہ ہوجائے والے بوٹے کے سفر کی تفصیل ہے جو پہاڑ سے اتر کر پہلے برفیلے پانیوں اور پھر میدانی علاقے کے ٹھہرے ہوئے گدلے پانیوں کے ساتھ سفر کرتے ہوئے بالآخر اس گمنام بستی میں دریائے گھاگرا میں غسل لیتی ناول کی ہیروئن کے بدن کو جا کر چمٹتا ہے جہاں وہ اس کے لمس، شکل و صورت سے اندازہ لگا لیتی ہے کہ یہ گلیشئیرز سے پہنچا ہے اور بڑے پانی (سیلاب) آنے کو ہیں۔
تاہم بہت سال بعد جب اوپر ہمالیہ کے گلیشئیرز پر برف کے تو دے ٹوٹنے سے پانی کا رخ تبدیل ہوجاتا ہے تو اس وقت وہاں چٹانوں سے علیحدہ ہونے والا بوٹا بڑی تگ ودو کے بعد برف میں سے راستہ بنا کر نکل پاتا ہے اور میدانی علاقوں میں جانے کا سفر طے کرنے کے لئے پانی بہت کم ہوتے ہیں تو یہ بوٹا راستے میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس دفعہ کم پانی میں نہاتی پاروشنی اس بوٹے کی حالت زار سے یہ اندازہ لگا لیتی ہے کہ بڑے پانیوں کے رستے اوپر رک چکے اور اب وہ کبھی نہیں آئیں گے۔
تاہم اس ساری ماحولیاتی تبدیلی کو سمجھتے ہوئے بھی بستی کے لوگ دریائے گھاگراکے منبع بلند علاقوں (گلیشئیرز) کی طرف سفر کرکے اس تبدیلی کو سمجھنے یا پانی کا رخ تبدیل ہو جانے والے نئے علاقوں کی طرف نکل جانے کا تردد نہیں کرتے بلکہ اپنے علاقے میں ہی مرنے سڑنے کے لئے پڑے رہتے ہیں۔
ناول کے ایک ہیرو سمرو کو بھی رات کو برتنوں میں رکھے پانی کا گرمی کی وجہ سے کم ہوتے جانے کا احساس ہورہا ہوتا ہے اور وہ دریا کو بھی کم ہوتے بغور دیکھ رہا ہوتا ہے۔ وہ اپنے انداز میں بستی والوں کو یہ پیغام دے رہا ہوتا ہے کہ میں دریاؤں کو سوکھتے ہوئے دیکھ رہا ہوں مگر اس کی بات کو اہمیت نہیں دی جاتی اور کہا جاتا ہے کہ وہ خواب دیکھتا ہے یا اسے نیند میں چلنے کی عادت ہےلیکن ایک دن واقعی یہ ہو جاتا ہے۔ دریا خشک ہوجاتے ہیں۔
ناول میں دریائے گھاگڑا میں سال کے مختلف اوقات میں پانی کی بہاؤ کی کیفیات اور پانی کی سطح کی حدود کو خوب صورتی سے بیان کیا گیا ہے اور پھر اس میں مختلف سالوں میں آنے والی تبدیلیوں کے بارے میں بڑی تفصیل سے بتایا گیا ہے جیسے کہ پہلے پہل پانی کا ہمیشہ کی طرح کناروں سے نکل کر پاس پڑوس کی زمینوں تک نہ جانا پھر کچھ سال بعد پانی کا سکڑ کر کناروں کے اندر سمٹ جانا اور پھر بعد کے سالوں میں کناروں میں بھی آہستہ آہستہ نیچے چلے جانا اور آخر میں ایک گدلی ندی میں تبدیل ہوکر بالآخر خشک ہو جانا۔
ان تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ جنگل اور پودے بھی کم ہورہے ہوتے ہیں لیکن بستی کے لوگ یہ سب دیکھتے بھالتے ہوئے بھی صرف ان نشانیوں کے بارے گفتگو کرتے رہتے ہیں لیکن عملی اقدام کرتے نظر نہیں آتے۔ یہ لوگ پانی کی بولی سمجھتے ہیں۔ دریا کے بہاؤ اور موڈ کو بھی سمجھتے ہیں بلکہ انہیں تو اس وقت بہنے والے سندھو دریا کے سات بھائیوں تک کا پتہ ہوتا ہے اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان کا سب دریاؤں کا منبع ایک ہے۔ وہ اپنے دریا کے بہاؤ کو اوپرا ہوتے دیکھتے ہیں مگر سمجھ نہیں پاتے کہ ایسا کیونکر ہورہا ہے۔۔ "ہر شے اپنی اپنی جگہ تھی تو اب مینہ کیوں نہیں برسا۔ بڑے پانی کیوں کم ہوگئے۔۔ "
انہیں ماحولیاتی تبدیلی کا بھی احساس ہورہا ہوتا ہے۔۔ جیسے یہ لائن ملاحظہ فرمائیں۔۔ "کہیں ایسا تو نہیں کہ ہماری بستی میں اب گرمی بڑھتی جارہی ہے اور وہ پانی کو سکھاتی ہے۔۔ پر نہیں۔۔ رت کیسے بدل سکتی ہے۔ "۔ ٹھنڈے مہینوں جیسے پوہ، ماگھ کی دھوپ میں بھی چبھن آنا شروع ہو چکی ہوتی ہے۔ درختوں ٹہنیوں پر سالہا سال سے دھول جم چکی ہوتی ہے۔ درختوں کے نیچے کا گھاس پھوس بھی سوکھ جاتا ہے۔ کم پانی والی کانٹے دار جھاڑیاں نمودار ہو چکی ہوتی ہیں۔
ناول میں دریاؤں کے کنارے بستیوں، جنگلات اور سبزے کے نظام اور ان میں بسنے والے جانوروں، پرندوں اور حشرات تک کو ایک پورے ایکو سسٹم بناتے ہوئے دکھایا گیا ہے جو کہ ایک دوسرے پر پل رہے ہوتے ہیں۔ مردہ انسانوں اور جانوروں کا گوشت پرندے اور حشرات کھاتے ہیں انسان درختوں، پودوں اور فصلوں پر گزارہ کر رہے ہوتے ہیں۔ اس کے بعد جب ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے یہ ایکو سسٹم ٹوٹتا ہے تو سب کچھ تباہ ہوجاتا ہے۔ انسان بھوکے مرتے ہیں، پیڑ خشک ہوجاتے ہیں، ریت ہوا کے ساتھ اڑ اڑ کر بستی اور جنگلات کو بھر دیتی ہے۔ بارشیں نہ ہونے سے ہر طرف گرد اڑتی نظر آتی ہے۔
زیر زمین پانی بہت نیچے چلا جاتا ہے۔ کنوئیں خشک ہوجاتے ہیں۔ سالانہ سیلاب نہ آنے سے پہلے دریا کے کنارے زرعی زمینیں خشک ہوتی ہیں جن پر کسی زمانے میں سیلاب سے آب پاشی ہوتی تھی۔ بھر فصلیں تباہ ہوتی ہیں اور آخر میں پانی کے اندر رہنے والے جانوروں جیسے کچھوے اور مچھلیوں کو اپنی جان بچانے کی تگ ودو کرنا پڑتی ہے۔
دریاؤں کے کنارے آج سے پانچ ہزار سال قبل کی یہ تہذیب اتنی ترقی یافتہ تو ہوتی ہے کہ وہ مٹی سے برتن بنا کر انہیں آوے میں باقاعدہ پکاتے ہیں اور ان پر طرح طرح کے بیل بوٹے پینٹ کرتے ہیں بھٹے میں اینٹیں پکا کر گھر بناتے ہیں لیکن وہ دریائے گھاگرا اور ہاکڑہ کے کم ہوتے پانی کو ذخیرہ کرنے، اس کا رخ موڑ کر اپنے بنجر ہوتے کھیتوں تک اس کا پانی لانے یا پانی کو دریا سے لفٹ کرنے کا بالکل نہیں سوچتے (پانچ ہزار سال بعد بھی آج ہمارا یہی حال ہے)۔ وہ دریا کے کنارے ہاتھ پر ہاتھ دھرے کئی سالوں تک بیٹھے بڑے پانیوں کا صرف انتظار ہی کرتے رہتے ہیں۔
وہ نہ پانی کے رواں راستوں یا ذخیروں کی طرف رخ کرتے ہیں اور نہ ہی میسر پانی کو بہتر استعمال پر سوچتے ہیں اور بالآخر ختم ہوجاتے ہیں۔ حالانکہ ان کو معلوم ہوتا ہے کہ دریا خشک ہونے سے آس پاس کی کئی اور بھی کتنی بستیاں ختم ہو چکیں۔
تاہم ان مایوس کن حالات میں بھی اس ناول کا اختتام ایک نئی زندگی کی شروعات اور ایک نئے حوصلے سے ہوتا ہے۔ جو یہ پیغام دیتا ہے کہ گو دریاؤں اور سمندروں کے پانی کم ہونے یا خشک ہونے سے زندگی تعطل کا شکار ہو جاتی ہے اور بہت سے جاندار ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتے ہیں حتی کہ ڈائنو سار بھی مگر انسان واحد ایسی عجیب وغریب مخلوق ہے جو ان تمام حادثات و واقعات اور تباہی کے بعد بھی بچ نکلتا ہے کیوں کہ وہ اپنی عقل استعمال کرکے خود کو ہر قسم کے حالات کے مطابق ڈھالنے کی صلاحیت رکھتاہے۔
پاکستان بھی موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے متاثرہ دنیا کے دس ممالک میں شامل ہے۔ ہمیں بھی سمجھداری سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔