Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zafar Iqbal Wattoo
  4. Az Toronto Maktoob (4)

Az Toronto Maktoob (4)

اَز ٹورنٹو مکتوب (4)

ان دنوں ٹورنٹو کے مرکزی پارک میں بے گھر مہاجرین کے کیمپوں کے میڈیا میں خوب چرچے ہیں جن کی وجہ سے مقامی لوگ اپنے آپ کو کافی غیر محفوظ سمجھ رہے ہیں۔ بین الاقوامی طلبا اور عارضی ورکر پروگرام کے بڑھتے ہوئے استعمال کی وجہ سے کینیڈا میں عارضی رہائشیوں کی تعداد میں بے انتہا اضافہ ہوا ہے اور 1957 کے بعد پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ کینیڈا کی آبادی میں ایک سہ ماہی کے دوران چارلاکھ تیس ہزار افراد کا اضافہ ہوا ہے۔ لہذا حکومت کا ارادہ ہے کہ آئندہ تین سالوں میں عارضی رہائشیوں کی تعداد کل آبادی کے 6.2 فی صد سے کم کرکے 5 فی صد کردے۔

ان عارضی رہائشیوں خصوصاً طلبا میں سب سے زیادہ تعداد انڈین کی ہے جو چند ماہ میں لاکھوں کی تعداد میں کینیڈا پہنچ چکے ہیں۔ ان کی وجہ سے ٹورنٹو میں ہاؤسنگ کے کافی مسائل پیدا ہوگئے ہیں۔ ٹورنٹو کے نواحی شہر بریمپٹن جسے منی انڈیا بھی کہتے ہیں میں ایک ایک گھر میں چالیس چالیس سٹوڈنٹ گھسے ہوئے ہیں۔ گھروں کےکرائے آسمانوں کو چھو رہے ہیں۔ عارضی مزدوری مشکل سے ملتی ہے اور ہر بندہ "اوبر" چلانے نکلا ہوا ہے جس سے پرانے ٹیکسی ڈرائیوروں کی آمدن تیزی سے کم ہوئی ہے۔

لبرل پارٹی پر بے تحاشا مہاجرین بلانے پر تنقید ہورہی ہے لیکن کینیڈا کو اپنی ترقی کی رفتار قائم رکھنے کے لئے ابھی بھی بہت مہاجرین کی ضرورت ہے۔ کینیڈا اس وقت بھی دنیا کی دس بڑی معیشتوں میں شامل ہے لیکن ہنر مند مزدوروں کی شدید کمی کا شکار ہے۔ ٹورنٹو شہر کے اندر ہی آپ کینیڈا کے تیزی سے ٹوٹ پھوٹ کے شکار انفراسٹرکچر کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں۔ کسی سول انجینیئر کے لئے ان دراڑوں والے فلائی اوورز کے اوپر سے گزرنا ایک مشکل کام ہے۔

ٹورنٹو ایئرپورٹ شمالی امریکا کے چند مصروف ترین ایئرپورٹس میں سے ایک ہے جہاں مہاجرین اور عارضی رہائشیوں کی فلائٹیں دنیا بھر سے ہروقت اتر رہی ہوتی ہیں اور جہاز سے اترنے سے لے کر امیگریشن کاؤنٹر تک لائن تین گھنٹے میں پہنچاتی ہے۔ فلائٹ سے اتر کر آٹومیٹک مشین پر امیگریشن فارم فِل کریں تو سب سے پہلے جو چھ سات قومیتیں مشین آپ کو آفر کرتی ہے ان میں انڈیا سب سے اوپر ہوتا ہے اس کے بعد چائنا اور پھر چند دوسرے ممالک۔ پاکستان لسٹ میں بہت نیچے آتا ہے اور اس کو سرچ کرکے فل کرنا پڑتا ہے۔

ہم جب تین گھنٹے کی لمبی لائن بھگتا کر امیگریشن کاؤنٹر تک پہنچے تو وہاں بیٹھی بی بی نے صرف ایک ہی سوال کیا کہ کینیڈا وزٹ کرنے کا مقصد کیا ہے؟ ہمارا PDAC کنونش میں شرکت کرنے کا سنتے ہی اس نے کنونشن کی رجسٹریشن دیکھی اور فارم پر اینٹری کی سٹیمپ لگا دی۔ امیگریشن کی لائن اتنی لمبی ہوتی ہے کہ کئی مسافر جو بارہ بارہ گھنٹے کی مسلسل فلائٹیں لے کر کینیڈا پہنچے ہوتے ہیں ان سے کھڑا ہی نہیں ہوا جاتا۔

برصغیر سے تعلق رکھنے والے مقامی سیاست میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ کینیڈا میں بلا مبالغہ ایک ملیئن سے زیادہ سکھ پہنچے ہوئے ہیں۔ ان کے کم ازکم پانچ لوگ کینیڈا کی پارلیمنٹ میں ہیں جن میں سے ایک تو وفاقی وزیردفاع ہیں۔ دو پاکستانی بھی ممبر پارلیمنٹ ہیں۔ یہ لوگ زیادہ تر لبرل پارٹی کے پلیٹ فارم پر الیکشن لڑتے ہیں کیونکہ اس کی پالیسیاں پرو امیگرینٹس ہیں۔ کینیڈا کی برسرِاقتدار لبرل پارٹی کے لئے فنڈز جمع کرنے میں دو پاکستانی نژاد ارکانِ پارلیمنٹ سلمٰی زاہد (اسکار بورو سنٹر) اور شفقت علی (برامپٹن سنٹر) " ٹاپ ٹین" میں آئے ہیں۔ لبرل پارٹی کو آپ کینیڈا کی جی ٹی روڈ کی پارٹی بھی کہہ سکتے ہیں جوکہ صرف گریٹر ٹورنٹو ایریا (GTA) کو فوکس کرکے بہت سی سیٹیں جیت جاتی ہے۔ اس ایریا میں مہاجرین کی آبادی سب سے زیادہ ہے۔

تاہم جسٹن ٹروڈو کی لبرل پارٹی کی پوزیشن اس دفعہ کمزور نظر آرہی ہے معیشت کی حالت ٹھیک نہیں۔ پراپرٹی ڈاؤن ہے۔ جابز کے مسائل ہیں۔ اس کے مقابلے میں کنزرویٹو پارٹی کی پالیسیاں امیگرینٹس کے معاملے میں بہت سخت ہیں جسے مقامی لوگ پسند کرتے ہیں۔

(مکتوب جاری ہے)

Check Also

Netherlands

By Zaigham Qadeer