Wednesday, 25 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zafar Iqbal Wattoo
  4. Are You Ok?

Are You Ok?

آر یو او کے؟

وہ ایک مسافر کو ڈراپ کر کے واپس گھر جا رہا تھا کہ شہر کے پوش ہوٹل کے باہر ایک قطار میں لگے درجن بھر فلیگ پوسٹس پر اسے سبز ہلالی پرچم لہراتا نظر آیا۔ اس کا دل دھک سے باہر آ گیا کیونکہ یہ ناروے کا ایک دور دراز قصبہ تھا جس میں وہ واحد پاکستانی تھا۔ اسے یہاں رہتے ہوئے کئی برس بیت گئے تھے لیکن کسی اور پاکستانی سے اس شہر میں اس کا سامنا نہیں ہوا تھا اور وہ بھی اب اس ماحول میں رچ بس گیا تھا۔

غیر ارادی طور پر اس نے اپنی ٹیکسی کا رخ ہوٹل کے صدر دروازے کی طرف موڑ دیا اور ٹیکسی پارکنگ میں لگا کر وہ ہوٹل کے میں گیٹ سے استقبالیہ کی طرف بڑھا۔ وہ حیران ہو رہا تھا کہ اندر سے یہ ہوٹل کتنا بڑا اور شاندار تھا۔ وہ تو بس اس کے باہر سے ہی ہر دفعہ گزر جاتا تھا اور کبھی اس کے اندر آنے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوئی تھی۔

استقبالیہ پر بیٹھی سنہری رنگت کے بالوں والی نارویجئین لڑکی نے پیشہ ورانہ مسکراہٹ کے ساتھ اس سے پوچھا "میں آپ کی کیا مدد کر سکتی ہوں؟" اس نے باہر لگے پاکستانی پرچم کا پوچھا کہ اس کو آج ہوٹل کے باہر لہرانے کی کیا خاص وجہ ہے؟ لڑکی نے بتایا "ہمارے ہاں آج ایک پاکستانی مہمان بھی ٹھہرے ہوئے ہیں تو اس وجہ سے یہ جھنڈا لگا دیا ہے۔ "

اس کا دل اس مہمان سے ملنے کے لئے مچل اٹھا جس کی وجہ سے آج اس دور دراز جگہ پر بھی سبز ہلالی پرچم لہراتا دیکھنے کا موقع ملا تھا۔ اس نے اپنی خواہش کا اظہار لڑکی سے کیا جو کہ تھوڑی بہت منت ترلے کے بعد اس کا رابطہ اس پاکستانی مہمان سے کروانے پر راضی ہو گئی تھی اور اب ملِک میرے کمرے میں بیٹھا مجھے احترماً اس طرح دیکھ رہا تھا جیسے میں ابھی ابھی حج کر کے مکہ سے لوٹا ہوں۔

وہ مجھے اپنے گھر آنے کی دعوت دے رہا تھا تاہم میرا اگلے پورے ہفتے کا شیڈول بک تھا اور ویک اینڈ پر ہی ملاقات ہو سکتی تھی۔ میں خود اس طرح اتنی چھوٹی سے جگہ پر ایک ہم وطن کے ملنے پر خوش تھا اور اس سے ناروے میں ملنے والے کھانوں کے بارے میں شکوہ کر رہا تھا۔ پچھلے دو تین دن سے مسلسل ابلی ہوئی لوبیا، ابلے چاول اور آلو کھا کھا کر ٹیسٹ بڈ جواب دے چکے تھے۔ نمک مرچ کے شدید کمی کے شکار اس ملک میں اگلے چند ہفتے گزارانا مشکل نظر آ رہا تھا۔

ملک مجھے ناروے میں اپنی سیٹنگ بنانے کے قصے سنا رہا تھا کہ کس طرح وہ آج سے پندرہ بیس سال پہلے خالی ہاتھ کسی نہ کسی طریقے سے یہاں پہنچنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ پہلے ایک گوری سے شادی کی، پیپر بنائے اور پھر جب کاغذ برابر ہو گئے تو پاکستان سے شادی کر کے بیگم کو لے آیا اور اب ماشااللہ اس کا ایک چھوٹا سا ریسٹورنٹ اور تین ٹیکسیاں چل رہی تھیں۔ دو بچے تھے جو کہ وہیں کے جم پوتھے اور اردو بمشکل ہی سمجھ سکتے تھے۔

میں نے کہا "یہ بتاؤ ملک کہ ادھر تو پاکستانی نہیں ہیں تو تمھارا ریسٹورینٹ کیسے چلتا ہے"؟ کہنے لگا "آپ بھی بڑے سادہ ہو۔ بھئی ہم گوروں کی خوراک اور مشروبات بیچتے ہیں۔ مجبوری ہے"۔ میں نے اسے کہا کہ اس کا مطلب ہے اب تم سیٹ ہو گئے ہو اور خوب مزے ہو رہے ہیں۔ اس کے چہرے پر ایک رنگ آ کر گزر گیا تاہم وہ سنبھلتے ہوئے رونی صورت بنا کر بولا" کہاں بھائی؟ مزے تو پاکستان میں ہیں۔ ادھر تو پد مارنے کے لئے بھی حکومت کی اجازت لینی پڑتی ہے۔

میں اپنے گھر میں ایک نیا باتھ روم بنانا چاہ رہا تھا۔ سب سے پہلے میونسپیلٹی کو درخواست دی۔ ان کے لوگوں نے فزیبیلٹی چیک کی کہ اس سے گھر بندوں کے لئے رہنے کی کم سے کم گنجائش تو متاثر نہیں ہو گی۔ پھر ان کے لائسنس یافتہ نقشہ ساز سے گھر میں باتھ روم کا ترمیمی نقشہ بنوایا۔ پھر ان کے منظور کردہ پلمبر سے پلمبنگ کا کام کروایا، بجلی والے سے بجلی اور پھر سینٹرل ہیٹنگ والے سے اس کا کام کیونکہ ہمیں یہاں باتھ روم ہر وقت خشک رکھنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں ہوتے تو جس طرح مرضی بنا لیتے"۔

پھر مزید فرمانے لگا کہ "میں یہاں ٹیکسی چلاتا ہوں لیکن ادھر کے قانون کی پابندی نے میری ڈرائیونگ ایسی خراب کر دی ہے کہ قسم سے میں اب پاکستان میں جا کر خود گاڑی ڈرائیو نہیں کر سکتا۔ ہمیشہ ٹھوک دیتا ہوں۔ اسی لئے اب پاکستان جاتے ہی میں سب سے پہلے رینٹ پر ڈرائیور سمیت کار لیتا ہوں جو میرے پورے قیام کے دوران میرے ساتھ رہتی ہے"۔ میں نے کہا "یہ تو واقعی ظلم ہے"۔

وہ ضد کر کے زبردستی مجھے اپنے ساتھ گاڑی میں سٹی سنٹر کا چکر لگوانے لے گیا۔ پھر اس نے مجھے ریل اسٹیشن بھی دکھایا ہم نے ایک جگہ سے کافی پی۔ اب رات ہو رہی تھی اور نائٹ لائف انگڑائی لے کر اٹھ بیٹھی تھی۔ کلب اور بار آباد ہونے لگے تھے اور سڑک کنارے سجائی گئی کرسیوں پر نوجوان جوڑے بیٹھے پینے پلانے میں مشغول تھے۔ ہم نے دو گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد واپسی کی راہ لی۔

سٹی سنٹر سے نکلتے ہی ایک اشارہ سرخ تھا لیکن ملک صاحب نے بائیں طرف کے بار کی طرف جاتے ہوئے ایک جوڑے کو مسلسل دیکھتے ہوئے اپنی گاڑی آگے بڑھا لی جو مخالف سمت سے آنیوالی کار کے ساتھ ٹھک گئی۔ گاڑیوں کی ٹکر کی آواز سن کر سڑک کنارے بائیں طرف کے بار میں اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ داخل ہوتی لڑکی تیزی سے بھاگ کر ملک صاحب کی طرف دوڑی اور انہیں تھپتھپا کر بولی۔ "آر یو اوکے ڈیڈ؟"

Check Also

Asad Muhammad Khan

By Rauf Klasra