Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zafar Iqbal Wattoo
  4. Aap Ka Khadim

Aap Ka Khadim

آپ کا خادم

نازک اندام فلپینو دوشیزہ کا چہرہ ہماری بات سنتے ہی لال ہوگیا تھا اور اس کے چہرے کی مسکراہٹ اچانک غائب ہو گئی۔ وہ شکوے بھری نظروں سے ہمیں دیکھ رہی تھی۔ اس نے ہم سے پوچھا "کیا آپ لوگ ہمیں بد دیانت سمجھتے ہیں ؟" لیکن ہم ڈھیٹ بنے ہوئے تھے اور چیک ان سے پہلے کمرہ دیکھنے پر مصر تھے۔ اس لڑکی نے دانت پیستے ہوئے ایک اسسٹنٹ کو بلایا اور ہمارے ساتھ روانہ کردیا۔

کچھ دیر پہلے لابی میں داخل ہوتے ہی ہمیں احساس ہو گیا تھا کہ ہمارے ساتھ آن لائن شاپنگ والا سین ہوگیا ہے۔ ہم پچھلے 24 گھنٹے سے مسلسل سفر میں تھے اور ابھی ابھی منیلا ائیرپورٹ سے یہاں تک کا ٹریفک جام سے بھرپور ڈیڑھ گھنٹے کا رلا دینے والا سفر طے کرکے پہنچے تھے۔ ہوٹل کی ٹیکسی ہمیں شاہراہ آر ٹیگاس پر واقع ڈسکوری ہائٹس میں ڈراپ کرکے جاچکی تھی۔ لابی میں دو چھوٹے صوفے رکھے تھے جن پر بمشکل پانچ چھ آدمی بیٹھ سکتے تھے۔ مختصر سے استقبالیہ پر صرف ایک فلپینو لڑکی کھڑی بیک وقت ٹیلی فون آپریٹر کم ریسپشنسٹ بنی ہوئی تھی۔

ہم لاہور سے براستہ دوحا یہاں پہنچے تھے۔ اگلے تین چار دن ہمیں اس ہوٹل کے پاس ہی ایشیائی ترقیاتی بنک کے صدر دفتر میں ہونے والے ایوینٹس میں شرکت کرنا تھی۔ لاہور سے ہمارے دفتر والوں نے ڈسکوری ہائیٹس میں ہمارا ایک ہفتے کا قیام آن لائن بک کروادیا تھا لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اس کی مختصر لابی دیکھتے ہی ہمیں بے انتہا مایوسی ہوئی تھی۔ ان لوگوں نے شائد اپنی ویب سائٹ پر زبردست تصاویر دکھا کر ہمارے دفتر والوں کو دھوکہ دیا تھا۔

میں نے رانا صاحب سے کہا کہ یہاں نہیں رکتے کہیں اور چلتے ہیں لیکن سفر کی تھکاوٹ ان پر غالب تھی اور وہ کسی نہ کسی طریقے سے آج کی رات یہاں کاٹنا چاہ رہے تھے لیکن ہم اس فلپینو دوشیزہ کو اب ناراض کر چکے تھے۔ اسسٹنٹ ہمیں لفٹ کے ذریعے چودہویں منزل پر لے آیا جہاں ہمارا سویٹ بک تھا۔ ہم اپنا سامان نیچے لابی میں ہی چھوڑ آئے تھے تاکہ سویٹ پسند نہ آنے کی صورت میں دوبارہ واپس نیچے نہ لانا پڑے لیکن یہ سویٹ ہماری توقعات سے کہیں زیادہ صاف ستھرہ، کشادہ اور آرام دہ تھا۔ ہمیں فلپینو لڑکی کی ناراضگی سمجھ آرہی تھی اور ساتھ ہی اپنے شکی روئے پر افسوس ہورہا تھا۔

اچانک اسسٹنٹ بولا " سر آپ مجھے اپنے لیپ ٹاپ اور موبائل کے چارجر چیک کروائیں؟" رانا صاحب گرج دار آواز میں بولے "تم نے چیک کر کے کیا کرنا ہے؟" وہ تھوڑا جھک کر بولا "سر ہمارے یہاں انٹرنیشنل گیسٹ ٹھہرتے ہیں تو ان کے پاس ہر قسم کے چارجر ہوتے ہیں، پتلی پن والا، موٹی پن والا، دو ٹانگوں والا اور تین والا، کم اور زیادہ وولٹیج والا۔ تو ہم ان کے چارجر چیک کرکے انہیں اس کے مطابق کنورٹر فراہم کر دیتے ہیں تاکہ ان کے گیجٹس کام کرتے رہیں "۔ میں سوچ رہا تھا کہ کیا شاندار سروس ہے؟ اتنا خیال تو دنیا کے کسی ہوٹل والوں نے نہیں رکھا۔

اسسٹنٹ نے ہمیں واش روم کے نلوں اور سویٹ کے الیکٹرک سسٹم کے فنکش سمجھائے، کچن اور کراکری کا بتایا اور رخصت کی اجازت چاہی۔ ساتھ ہی ہمیں کنورٹر فوری بجھوانے کا بتایا۔ ہم نیچے پہنچے۔ چیک ان کیا اور سامان اوپر لے جانے لگے۔ ناراض فلپینو دوشیزہ سے جب ہم نے اپنے روئیے پر معذرت کی تو اس نے مسکراتے ہوئے کہا" سر ہم آپ کے خادم ہیں "۔

دوسرے دن ناشتے پر جب میں اور رانا صاحب بوفے کو گہری نظر سے کافی دیر تک تاڑ رہے تھے تو منیجر ہمارے پاس پہنچ گیا اور پوچھا " سر کوئی مسئلہ ہے تو حکم کریں آپ لوگ کافی دیر سے پلیٹیں لے کر کھڑے ہیں ؟" ہم نے اسے حلال حرام کے حوالے سے ایک مختصر سا لیکچر دیا جو اس کے اوپر سے گزر گیا تاہم وہ ہم سے معذرت کرکے اندر چلا گیا اور سروس اسٹاف میں سے "فاطمہ " نامی فلپینو لڑکی کو بلا لایا جس نے ہمارا مسئلہ سمجھ کر اسے سمجھایا تو اس نے بے حد معذرت کی اور وعدہ کیا کہ انشااللہ کل سے آپ کو باقاعدہ حلال خوراک سرو ہوگی۔ اس کے بعد جتنے دن ہم وہاں رکے وہ ہمارے لئے خود حلال فوڈ تیار کرواکر سرو کرتا۔

دو سال گزرتے ہیں کہ ایک دفعہ پھر ہم ہوٹل کی لابی میں کھڑے تھے لیکن اس دفعہ یہ لابی میریٹ ہوٹل کی تھی جو کہ چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی، جس میں ہر طرف کرسیاں صوفے لگے ہوئے تھے۔ ویہلے لوگ بیٹھے گپ شپ مار رہے تھے۔ ہمارے دفتر والوں نے ایڈوانس بکنگ کروا رکھی تھی اور تاکید تھی کہ مار گلہ ویو والے کمرے ملیں۔ تاہم ریسیپشن پر کھڑے آدم بیزار لڑکے نے بتایا کہ آپ کو دوسری طرف کے کمرے دے رہے ہیں۔ ہم نے بغیر وجہ بتائے کمروں کی تبدیلی کا پوچھا تو اس نے کندھے ا چکائے کہ بکنگ والے نے یہی کمرے آپ کے نام پر بک کئے ہیں۔

ہم دانت پیستے ہوئے کمرہ میں پہنچے تو پتہ چلا کہ ٹوئن شئیرنگ کئ بجائے ڈبل بیڈ روم والا کمرہ بک ہے۔ جب انٹر کام پر اس حرکت پر احتجاج کیا تو جواب ملا کہ اس وقت یہی کمرہ ہے اگر پسند نہیں تو کہیں اور چلے جائیں۔ کیونکہ "وہ ہمارے خادم نہیں تھے " خیر کمرہ تو ہمارا تبدیل ہوگیا لیکن سروس اسٹاف کی ہٹ دھرمی پر بہت کوفت ہوئی۔

Check Also

Baat Kahan Se Kahan Pohanch Gayi, Toba

By Farnood Alam