1.  Home/
  2. Blog/
  3. Zafar Bashir Warraich/
  4. Ye Ustadon Ko Kya Ho Gaya?

Ye Ustadon Ko Kya Ho Gaya?

یہ استادوں کو کیا ہوگیا؟

آج سے تقریباً گیارہ ماہ قبل معروف امریکی جریدے نیو یارک پوسٹ میں امریکی تعلیمی اداروں میں اساتذہ کے ہاتھوں طالبعلموں کو ہراساں کرنے پر رپورٹ شائع ہوئی، تو نہ صرف امریکہ بلکہ دنیا بھر کے فہمیدہ حلقوں میں کُہرام مچ گیا، اور اس رپورٹ پر کہیں کھلے عام، اور کہیں ڈھکے چھپے انداز میں تبصرے شروع ہوگئے، چنیدہ حضرات نے اس بارے قوانین کو مزید سخت کرنے اور والدین کو اپنی ذمہ داریاں زیادہ بہتر انداز میں نبھانے پر زور دیا۔

اس سُلگتی رپورٹ کے مطابق سال 2022 کے صرف پہلے دس مہینوں، جی ہاں صرف دس مہینوں میں امریکہ بھر سے لگ بھگ پونے تین سو استاد جنسی ہراسگی میں گرفتار کرلئے گئے، اس رپورٹ سے پہلے ایک اور ریسرچ میں بھی اس تعداد کے زیادہ ہونے کے شبے کو ظاہر کیا گیا، اور ریسرچ میں بتایا گیا، کہ سامنے آنے والی یہ تعداد اصل تعداد سے سو فیصد کم ہے، کیونکہ ان واقعات کو مختلف معاشرتی وجوہات کی بنا پر پردے میں ڈھک دیا جاتا ہے۔

حالیہ رپورٹ میں گرفتار کئے گئے استادوں کے عہدوں سے متعلق حقائق بھی انتہائی تکلیف دہ ہیں، کہ ان گرفتاروں میں چار پرنسپل، دو اسسٹنٹ پرنسپل، دو سو چھبیس ٹیچر، بیس اسسٹنٹ ٹیچر اور سترہ کے قریب متبادل ٹیچر گرفتار کئے گئے، گویا اوپر سے نیچے تک یہ شیطانی کھیل پوری طرح رواں دواں ہے۔

اب ذرا امریکی سروے کو تھوڑی دیر کے لئے پَرے رکھیں، اور حالیہ اِسلامیہ کالج بہاولپور کے اسکینڈل کو ہی دیکھ لیں، اس کی آمدہ اطلاعات نے بھی ہمارے تعلیمی نظام میں جنسی آویزش کا پردہ چاک کرکے رکھ دیا ہے، اس شیطانی کھیل میں بھی اوپر سے لے کر نیچے تک ہر مقام پر، ہر مرتبے کا ملزم شیطانی کھیل کھیلتا رہا، صرف چیف سکیورٹی آفیسر کے فون سے پانچ ہزار سے کچھ اوپر ویڈیوز برآمد کی گئیں، اسی حلقے کے نامور سیاستدان کے صاحبزادے بھی کئی ویڈیوز میں اپنے اور دوسرے خاندانوں کی عزت کی دھجکیاں بکھیرتے نظر آئے۔

اسلامیہ کالج اسکینڈل میں صرف ویڈیوز ہی نہیں، بلکہ مختلف قسم کے نشہ آور مواد کا بھی تذکرہ ہوا، جس میں چرس، آئس اور شراب سر فہرست ہیں۔

دن میں تعلیم اور رات میں پارٹیوں کی خبروں نے جنوبی پنجاب کی اس معروف تعلیمی درسگاہ کی شہرت اور حُرمت کو ڈَس لیا ہے، جنوبی پنجاب کی لڑکیوں کے لئے جہاں تعلیمی سہولیات پہلے ہی کم ہیں، اس واقعے نے تعلیمی سہولیاتی ٹوکری کو مزید خالی کردیا ہے، یعنی کرے کوئی بھرے کوئی۔

اسلامیہ کالج سے پہلے گومل یونیورسٹی کے پروفیسر صاحب کے اسکینڈل نے تعلیمی اداروں میں سب ٹھیک ہے، کے بھرم کو کھول کے رکھ دیا، جہاں پروفیسر موصوف نوکری کے لئے آنے والی خواتین کو نوکری، اور طالبات کو ڈگری کا جھانسہ دے کر جنسی استحصال کرتے تھے، پروفیسر صاحب گومل یونیورسٹی میں اسلامک ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ تھے۔

اس واقعے نے بھی پختون اکثریتی علاقے کی لڑکیوں کے اعلیٰ تعلیم کی طرف بڑھتے تیز قدموں کو آہستہ کرنے میں ایک اسپیڈ بریکر کا کام کردکھایا، اور کئی ماں باپ، شوہر اور بھائی کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم بارے شک و شبے کا شکار ہوگئے۔

تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسگی، نشہ آور چیزوں کا بآسانی دستیاب ہونا، اعلیٰ اخلاقی معاشرتی معیار کے بجائے مشینی ڈگریاں بانٹنا، ان تعلیمی اداروں کی حرمت کو مسلسل زہر آلود کررہا ہے۔

ابھی کالم کا اختتامیہ کرنے جا رہا تھا، کہ کراچی یونیورسٹی سے متعلق خبر نے دل کو مزید بوجھل کردیا، خبر کے مطابق شعبہ اردو کے اسسٹنٹ پروفیسر کو طالبہ کے ساتھ ہراسانی کی شکایت پر معطل کردیا گیا، جامعہ کراچی کی ہراسمنٹ کمیٹی کے نئے فیصلے تک یہ معطلی قائم رہے گی۔

یہ تمام واقعات دیگ کے چند دانے ہیں، ورنہ یہ شیطانی چکر ستر فیصد سے زائد تعلیمی اداروں میں کسی نہ کسی شکل میں تعلیمی حرمت کے غلاف کے نیچے چل رہا ہے۔

کبھی حکومتوں کو دوسرے کاموں سے فُرصت ملی، تو شاید اس بارے میں سوچیں گے، کچھ نئے قوانین یا پرانے قوانین پر عمل درآمد کی کوئی نہ کوئی شکل بنائیں گے۔ یہ کب ہوگا یا کبھی نہیں، کسی کو بھی یقین نہیں۔

میں نے ایک بار درویش سے سوال کیا، کہ انسان کو شیطان بننے میں کتنی دیر لگتی ہے، درویش نے جواب دیا "صرف ایک لمحہ"۔

Check Also

Eid Aur Aabadi Qasba

By Mubashir Aziz