1.  Home
  2. Blog
  3. Zafar Bashir Warraich
  4. Ullu Kon?

Ullu Kon?

اُلّو کون؟

نَر اُلّو اور مادہ اُلّو دونوں کے تعلقات کئی مہینوں سے کشیدہ چل رہے تھے، وجہ مادہ اُلّو کی طرف سے انڈے بچوں کی خواہش اور نر اُلّو کی طرف سے مسلسل انکار تھا، آج کئی ماہ کی کشیدگی کے بعد اچانک نر اُلّو نے مادہ اُلّو کو ہنسانے کی کوشش کی، مادہ اُلّو حیران تھی کہ آخر کئی ماہ گزرنے کے بعد بھی آج اچانک سرتاج کو کیا ہو گیا ہے۔

یہ شہر کے مضافات میں ایک بہت بڑی حویلی ہے، بیگ صاحب کی وسیع آل اولاد اس کی مالک اور رہائشی ہے، گھر میں افراد کی کثرت، بچوں کے لئے کھیل کے لئے بہت بڑا صحن اور بڑے بڑے درخت، اور ان درختوں پر رنگارنگ پرندوں کے گھوسلے، بچوں کا کھیل کود کے دوران درختوں پر پتھر پھینک پھینک کر پرندوں کو تنگ کرنا محبوب مشغلہ ہے، اسی حویلی کے ایک اونچے درخت پر اُلّو کا بھی آشیانہ ہے۔ ان شریر بچوں کی سنگ باری کی عادت کی وجہ سے ہی نر اُلّو انڈوں سے گریزاں تھا۔

"نیک بخت آج میں نے اس گھر سے کئی کھانوں کی خوشبو ایک ساتھ محسوس کی ہے"، نر اُلّو نے کہنا شروع کیا، "اس سے کیا فرق پڑتا ہے"، مادہ اُلّو نے بیزاری سے جواب دیا، "کل رات میں نے عورتوں اور مردوں کو زور زور سے ایک دوسرے سے باتیں کرتے، جھگڑتے سنا، ان کی آوازیں اور تلخی اتنی بلند تھی کہ میں اپنے گھونسلے میں بھی اس کی تپش محسوس کر رہا تھا"، نر اُلّو نے پر یقین لہجے میں بتایا، "تو تمہارا کیا خیال ہے گھر بٹوارے کی طرف بڑھ رہا ہے" مادہ اُلّو نے سوالیہ انداز سے نر اُلّو کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا، "بالکل، کیونکہ کسی بھی خاندان یا گھر کے علیحدگی میں سب سے پہلے گھر میں علیحٰدہ علیحٰدہ کھانا پکنا شروع ہوتا ہے، اور پھر تو تکار اور لڑائی جھگڑے، حتیٰ کہ ایک دوسرے کی ہر بات بری لگنے لگتی ہے، اور بالآخر بٹوارہ یعنی خاندان کا خاتمہ"، نر اُلّو نے فلسفیانہ انداز میں جواب دیا۔

"لیکن اگر بٹوارہ ہو بھی گیا تو گھر تو خالی نہیں ہوگا"، مادہ اُلّو نے متفکرانہ انداز میں سرگوشی کی۔

"تم بالکل ٹھیک کہتی ہو، گھر تو خالی نہیں ہوگا، مگر افراد بہت کم ہو جائیں گے اور جس کا جہاں سینگ سمائے گا چلا جائے گا، اور پیچھے رہ جانے والے بھی بلآخر اسے کسی نئے خاندان کو بیچ کر اپنی راہ لے گا، اور اس سارے عرصے میں ہمارے انڈے بچے نکل کر اڑنا سیکھ چکے ہوں گے" نر اُلّو نے دور اندیشی سے جواب دیتے ہوئے کہا۔

مادہ اُلّو نر اُلّو کی دور اندیشی سے متاثر ہوتے ہوئے اپنی چونچ کا دانا دُنکا نر اُلّو کی چونچ سے تقسیم کرنے لگی۔

ہم میں سے اکثر لوگوں کو دوسروں کی بات حتیٰ کہ ماں باپ کی روک ٹوک بھی اچھی نہیں لگتی، نہ ان کی بات اچھی لگتی ہے، نہ ان کی اہمیت کا احساس ہوتا ہے، مشترکہ خاندانی نظام میں بھی بہت سی خامیاں ہوں گی، لیکن اس کی خوبیاں خامیوں پر ہر دور میں غالب رہی ہیں۔

لیکن یہ گاڑی صرف احساس اور قربانی کے پیٹرول سے چلتی ہے، امیدیں، لالچ اور طویل خاموشی سے اس کی بیٹری خراب ہو جاتی ہے اور یہ دھکا سٹارٹ ہو جاتی ہے، پھر دھکا دینے والے جب دھکا دے دے کر تھک یا مر جاتے ہیں، تو اس کا انجن فیل ہو جاتا ہے، جس کے بعد اس کی آخری منزل کباڑ خانہ ہوتا ہے، جہاں اسے ماہر کباڑیے بھاری ہتھوڑوں اور اوزاروں سے توڑ پھوڑ کر اس کا ہرہر پرزا الگ الگ کر دیتے ہیں، اور پھر ہر پرزا بکنے کے لیے سیکنڈ ہینڈ مارکیٹ میں چلا جاتا ہے۔

کچھ عرصہ پہلے کی خوبصورت اور آرام دہ کار کا ہر پرزا پھر ساری عمر سیکنڈ ہینڈ کہلاتا ہے۔

Check Also

Phoolon Aur Kaliyon Par Tashadud

By Javed Ayaz Khan