Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zafar Bashir Warraich
  4. Thanda Gosht

Thanda Gosht

ٹھنڈا گوشت

آج اتوار کا دن ہے اور کرنے کو کوئی کام نہیں، رات جلدی سونے کی وجہ سے نیند کا پیریڈ بھی مکمل ہوچکا ہے، تھوڑی دیر بستر پر لیٹے لیٹے آنکھیں بند کرکے نیند کے ساتھ دوبارہ چکر چلانے کی کوشش کی، لیکن نتیجہ ندارد۔

آنکھوں، دل، دماغ اور ٹانگوں نے اس ڈرامے کا حصہ بننے سے صاف انکار کردیا، نتیجہ ان سب کے سامنے ہَار مانی، اُٹھا، باتھ روم سے باہر نکلا، منہ پر چھینٹے مارے اور آستین سے منہ پوچھتے پوچھتے فلیٹ سے نیچے قصائی کی دوکان کے سامنے پڑے بڑے سے تخت پہ بیٹھ گیا۔

پپو قصائی ہمارے علاقے کا مشہور قصائی ہے، گوشت جانور کے جس حصے کا مانگو وہی دیتا ہے، بوٹیوں کے ساتھ ساتھ آہستگی سے چھیچھڑے نہیں ڈالتا، تول میں ڈنڈی نہیں مارتا، گوشت تولتے تولتے ایک آدھ بوٹی کپڑے کے نیچے نہیں لڑھکاتا، انجیکشن سے وزن بڑھا کر گوشت نہیں بیچتا، خواتین گاہکوں کو دیکھ کر اسکی آنکھوں میں احترام اور حیا کو اُمڈتے میں کئی بار دیکھ چکا ہوں، غرض اس میں وہ تمام خوبیاں موجود ہیں جو ایک اچھے خاندانی قصائی میں ہونی چاہئیے۔

میں تخت پر بیٹھا پپو قصائی کو بغدہ چلاتے دیکھ رہا تھا، مجھے ایسا محسوس ہوا، کہ پاکستان کی بائیس کروڑ عوام اس گوشت کی مانند ہے جو لکڑی کی مُڈّی پر پڑا ہے، اور قصائی کا بُغدہ مجھے پاکستان کی وہ طاقتیں محسوس ہوئی، جو مسلسل 75 سال سے پاکستانی عوام کا قیمہ بنا رہی ہیں۔ اِن دنوں بُغدے کی رفتار اس قدر تیز ہوچکی ہے، کہ عوام کی چیخیں نکلنا بھی بند ہوچکی ہیں اور وہ چُپ چَاپ مُڈی پر سر رکھ کر کٹوا، اور پھر اپنے جذبات، احساسات اور خواہشات کا اپنے سامنے قیمہ قیمہ ہوتے دیکھ رہے ہیں۔

ذرا دیر میں بُغدہ چلاتے پپو قصائی کی نظر مُجھ پر پڑی تو اشارتاً پوچھا، "چائے منگاؤ"، میں نے چند لمحے سوچا، اور اثبات میں سر ہلا دیا۔ چند منٹُوں میں چائے آگئی، چائے والے نے ایک کپ میرے سامنے اور دوسرا قصائی کو پیش کردیا، جسے اُس نے ایک ہی گھونٹ میں حَلق میں اُنڈیلا اور دوبارہ بُغدہ گیری میں مصروف ہوگیا۔

ابھی چائے کا پہلا گھونٹ ہی حلق میں اتارا تھا، کہ ایک اُدھیڑ عمر عورت سڑک پر چِھچھڑے بَکھیرنے لگی، میں جھٹ تخت سے اترا، عورت سے گویا ہوا، "محترمہ آپ ان کوؤں، چیلوں کو گوشت کیوں ڈال رہی ہیں"، عورت نے ناگواری سے چند لمحے میری طرف دیکھا، "کیوں آپکو مطلب"، نہیں، میرا مطلب ہے آپ یہ کام شوقیہ کررہی ہیں یا کسی نیت سے"، عورت نے گوشت کا خالی شاپر ایک طرف پھینکتے ہوئے کہا، "دراصل میرے شوہر کی طبعیت بہت خراب ہے، میں تو دعا کرتی ہوں انکی جان آسانی سے نکل جائے، میری شروع کی عمر تو برباد ہوگئی، اب آخری عمر میں تو کچھ سکون مل جائے"، "تو آپ رات کے کسی پہر خاموشی سے ان کا گلہ کیوں نہیں دبا دیتی، تاکہ ان کی مشکل اور آپکی آسانی ایک ساتھ قبول ہوجائے"، میں نے آہستگی سے مشورہ دیا، عورت نے میری طرف حیرت اور غصے سے دیکھا اور تیزی سے اپنے راستے چل دی، عورت کی چال میں ابھی بڑھاپے نے دخل اندازی شروع نہیں کی تھی۔

میں دوبارہ تخت پر آبیٹھا، ابھی چائے کا کپ انگوٹھے اور شہادت کی انگلی میں پھنسا کر ہونٹوں کے قریب لایا ہی تھا، کہ ایک نوجوان لڑکے نے سڑک پر گوشت کی چھوٹی چھوٹی بوٹیاں پھینکنا شروع کردیں، میں جَھٹ تخت سے اُترا، قریب تھا کہ نوجوان لونڈا موٹر سائیکل پر بیٹھ کر چلا جاتا، میں نے اُسے جا لیا، "کیوں بھئی نوجوان تم نے کیا منت مانی ہے"، لڑکے نے بائیک کو کِک مارتے ہوئے کہا "وہ انکل دراصل میرے امتحان کل ہی ختم ہوئے ہیں، میرے پیپر بلکل بھی ٹھیک نہیں ہوئے، تیاری کی نہیں تھی، بس دوستوں کے ساتھ رات رات بھر تفریح کی، کل محلے کے ایک صاحب نے کہا کہ پرندوں کو دانہ اور گوشت ڈالنے سے من کی مراد پوری ہوتی ہے، اس لئے میں صبح صبح چیلوں کو گوشت ڈال رہا ہوں"، نوجان نے ایک ہی سانس میں پوری کہانی بیان کردی۔

"لیکن جب تم نے پیپرز میں کچھ لکھا ہی نہیں تو گوشت کی یہ بوٹیاں تمہارے کیا کام آئیں گی"، میں نے حیرت سے اسے کہا۔

"ارے انکل شکل اچھی نہ ہو تو کم از کم بات تو اچھی کرنی چاہئیے"، اس نے موٹر سائیکل پر بیٹھتے ہوئے غصے سے کہا اور یہ جا وہ جا۔

میں نے دوبارہ تخت کا رخ کیا، چائے ٹھنڈی ہوچکی تھی، ہوٹل والے کو میری عادت کا پتہ تھا، لڑکا آیا اور دوبارہ چائے گرم کرکے دے گیا۔

"بھاپ نکلتے کپ کا مزہ محسوس ہوتے ہی میرے منہ میں پانی بھر گیا، قریب تھا کہ چائے اُٹھاتا، ایک مہنگی ترین گاڑی سے ایک لمبا تڑنگا لحیم شحیم آدمی جو اُترا، گوشت کا پورا تھیلا خریدا، ڈرائیور کو پکڑایا، اور کہنے لگا ذرا اچھی طرح دور تک پھیلا دے، اور جیب سے مہنگی برانڈ کا سگریٹ نکال کر فضائی آلودگی میں اضافہ کرنے لگا۔

میں نے چائے کے کپ سے معذرت کی، تخت سے اتر کر مہذب نظر آتے شخص کے قریب جا کھڑا ہوا، "کیوں صاحب یہ گوشت کی بوٹیاں چیل، کوؤں کو کیوں ڈال رہے ہیں"، مہنگی گھڑی، واسکٹ اور مہنگے کپڑے پہنے صاحب نے سگریٹ کا دھواں میرے منہ پر پھینکتے ہوئے جواب دیا۔

"یار، دراصل میں سرکاری ٹھیکیدار ہوں، سرکار کے زیادہ تر ٹھیکے میرے پاس ہی ہوتے ہیں، پچھلے دنوں میری کمپنی نے بہت بڑا پُل بنایا ہے، میں شہر سے باہر تھا، اسٹاف نے مجھے خوش کرنے کے لئے مٹیریل حَد سے زیادہ کم ڈال دیا، حالانکہ مٹیریل تو ویسے بھی ہم بہت کم ڈالتے ہیں، لیکن اِس میں سیمنٹ اور سَریے کو صرف سُنگھایا گیا ہے، مجھے کمپنی کے چوکیدار نے مشورہ دیا تھا کہ صاحب پرندوں کو کوئی چیز ڈالیں، اِن معصوم اور بے زبانوں کی دعاؤں میں بڑا اثر ہوتا ہے۔ اگر یہ پُل گر گیا تو میری ایسی تیسی ہوجائیگی"۔ صاحب نے پھیکی مسکراہٹ سے جواب دیا۔

"تو کیا یہ دو کلو گائےکا گوشت بہت بڑے پُل کو سنبھال لے گا"، میں نے حیرت سے پوچھا۔

"میری جان دعاؤں میں بڑا اثر ہوتا ہے۔ انسان کی نیت اچھی ہونی چاہئیے"، صاحب نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے اَدھ جَلے سگریٹ کو سڑک پر پھینکتے ہوئے کہا۔

میں تخت پر آکر دوبارہ بیٹھ گیا، دوپہر ڈھل رہی تھی۔ دکان پر ٹنگا گوشت ختم ہوچکا تھا، پپو قصائی کے ملازم چُھریاں، بُغدے اور مُڈیاں دَھو دَھو کر صاف کر رہے تھے، ایک ملازم دکان دَھو رہا تھا۔

چائے ٹھنڈی ٹھار ہوچکی تھی، میں تخت پر بیٹھ کر سوچنے لگا، انسان بھی کیسا عجیب جانور ہے، اپنے ہر الٹے سیدھے، جائز ناجائز کام کے لئے کبھی مذہب کا سہارا، کبھی زبان کا سہارا، کبھی انسانیت، کبھی شرافت، کبھی تہزیب، اور کبھی دوسرے انسان کی قربانی سے بھی باز نہیں آتا۔

اور تو اور جانوروں اور معصوم چرند پرند کے پیٹ کے دوزخ، غرض ہر چیز سے کھیل جاتا ہے، واہ رے انسان، تیری ہر منطق نِرالی ہے۔

Check Also

Pakistan Ke Missile Program Par Americi Khadshat

By Hameed Ullah Bhatti