Sheikh Rasheed Ka Susral
شیخ رشید کا سُسرال
پتہ نہیں کون سے سیاستدان نے سب سے پہلے "جیل میرا سُسرال، ہَتھکڑی میرا زیور ہے" والا ڈائیلاگ بولا تھا، لیکن جس طرح بہت سے شعر کہنے والے شاعر کے بجائے کسی دوسرے مشہور شاعر کے کھاتے میں جا پڑتے ہیں، اُسی طرح یہ مشہور جملہ بھی پھینکا تو شاید کسی اور نے تھا، لیکن کمپنی کی مشہوری کے لئے اس کا استعمال سب سے اچھا اپنے شیخ رشید احمد نے کیا۔
جنوب مشرقی ایشیا میں دَاماد کے رشتے کو بہت اہمیت دی جاتی ہے، دَاماد کے سُسرال آتے ہی سَاس اُس کا ماتھا چُومتی ہے، سَالیاں بَھاگ بَھاگ خدمت کرتی ہیں، سَالے احترام سے بات چیت اور سُسر صاحب ایسے مشورے اور نصیحتیں کرتے ہیں، جو سَگے بیٹوں سے بھی نہیں کرتے۔
یاد رہے کہ یہ مزے صرف داماد کو ملتے ہیں، گھر داماد کا معاملہ ذرا الگ ہوتا ہے، اس پر پھر کبھی بات کریں گے۔
سرِ دَست تو شیخ صاحب کی سُسرال یاترا یا جیل یاترا کی تاریخ اُن ہی کی لکھی کتاب "فرزند پاکستان" سے پڑھتے ہیں، شیخ صاحب لکھتے ہیں، "جُلوس تھوڑی دور چَلا، تو پولیس سے مَڈبِھیڑ ہوگئی، اور پولیس نے اندھادھند آنسو گیس کا استعمال کرنا شروع کر دیا، پھر کیا تھا، بھگدڑ مچ گئی، یہ پہلا موقعہ تھا کہ راولپنڈی میں آنسو گیس استعمال ہوئی، اس لیے اسٹاک کافی پُرانا لگ رہا تھا، میں بھی پولیس کے نرغے میں آ گیا، اور پولیس نے مجھے پکڑ کر ٹرک میں بِٹھا لیا، تھانے میں جو ہتھکڑی مجھے لگائی گئی، اُس سے میرا ہاتھ خود بخود باہر نکل آتا تھا"، یہ ایوب خان کا دور اور شیخ صاحب کی پہلی سسرال یاترا تھی، اُس وقت شیخ صاحب کالج نہیں اسکول کے طالب علم تھے۔
شیخ صاحب نے اپنی جیل یاترا یا سسرال یاترا کو اپنی کتاب کے صفحہ نمبر 205 میں تفصیل سے یاد کیا، لکھتے ہیں۔
"ویسے تو میں نے اپنی طالب علمی میں ہی کافی جیلیں دیکھ لی تھیں، ایوب خان نے متعدد بار مجھے راولپنڈی جیل بھیجا، یحیٰی خان نے مجھے بَورِسٹل جیل ہری پور میں ایک سال قید بامشقت کے لیے بھیجا، بھٹو نے مجھے مشہور کڑیانوالہ قتل کیس میں گجرات، گوجرانوالہ، فیصل آباد اور شاہ پور جیل کی سیر کروائی، میں تین بار اڈیالہ جیل، تین مرتبہ جھنگ جیل، اور تین بار بھاولپور جیل گیا، میرے مشہور کلاشنکوف کیس کی سماعت عوامی خوف سے پہلے جیل کے اندر شروع کی گئی، لیکن ہائی کورٹ کے حکم سے باہر منتقل ہوئی اور مجھے سات سال قید بامشقت اور دو لاکھ جرمانے کا مجرم ٹھہرا دیا گیا"۔
آج سے دو ہفتے پہلے شیخ رشید احمد کو پولیس نے گرفتار کیا، تو پہلے پہل ان کے نشے میں ہونے کی خبریں بھی آئیں، لیکن شیخ صاحب نے قسم کھا کر شراب نوشی کی تردید کی، آج سے تقریباً ستائیس سال قبل شائع ہونے والی کتاب میں بھی شراب نوشی سے متعلق ایک واقعہ شیخ صاحب تحریر کر چکے ہیں، جس سے شیخ صاحب کی شراب بیزاری کا پتہ چلتا ہے۔
کتاب کے صفحہ نمبر 177 میں شیخ صاحب لکھتے ہیں۔ "ایک دن میں کراچی ائیرپورٹ پر اُترا، تو میری حیرانگی کی انتہا نہ رہی کہ جام صادق علی مجھے لینے آئے تھے، انہوں نے زبردستی میرا سامان لیا اور مجھے اپنی رہائش گاہ لے گئے، ان کو اس وقت بہت مایوسی ہوئی جب اُنہیں معلوم ہوا کہ میں شراب نہیں پیتا"۔
حالیہ گرفتاری پر شیخ صاحب پیپلز پارٹی کی ہائی کمان زرداری صاحب اور بلاول بھٹو زرداری پر برس پڑے، سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز میں انہوں نے پی پی کی قیادت پر جو جملے بازی کی، اسے ہمارے معاشرے میں"غلاظت" کہا جاتا ہے۔
ویسے شیخ صاحب کی پی پی دشمنی پرانی ہے، اپنی تین دہائی قبل لکھی کتاب کے صفحہ نمبر 136 پر رقمطراز ہیں۔ "میں قومی اسمبلی میں آگ اُگلتا تھا، اگر میں اسمبلی میں نہیں ہوتا تو بےنظیر مُڑ مُڑ کر دیکھتی تھیں، اور نصرت بھٹو شرارتی بچوں کی طرح مُنہ چِڑاتی تھیں، اور مجھے کئی مرتبہ سپیکر کے نوٹس میں لانا پڑا کہ میری طرف منہ کر کے گالیاں تک دیتی ہیں، اُس دور میں شیخ صاحب محترمہ بےنظیر بھٹو کو "پِنکی"، "راجکماری" نصرت بھٹو کو "مادر ملکہ" حاکم زرداری کو "گاڈ فادر" اور آصف زرداری کو "مرد اَوّل" کہہ کہہ کر چھیڑا کرتے تھے، اِن کی اس جملے بازی نے اُس دور میں بے پناہ شہرت پائی۔
ہاں تو بات ہو رہی تھی داماد کی سسرالی عزت بارے، لیکن یہ عزت صرف اس وقت تک ملتی ہے، جب تک ساس سسر خاص طور پر ساس زندہ ہو، "منہ ماتھا" وہی چومتی ہے، لیکن ساس کے دنیا سے جاتے ہی داماد کو سسرال اَجنبی اَجنبی سی جگہ لگتی ہے۔ شیخ صاحب کے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ ہوا ہے، پچھلے تیس سالوں میں ملک بھر کے مشہور جیلوں میں ان کا استقبال واقع سسرال کی طرح ہی ہوا ہوگا، لیکن دو ہفتے پہلے کی سسرالی عزت سے شیخ صاحب جیسا دبنگ لیڈر بھی کانوں کو ہاتھ لگا گیا۔
رہی سہی کسر ان کی عدالتی پیشی کی ویڈیو نے پوری کر دی، عدالت سے باہر نکلتے ہی کسی "تڑنگے" نے انہیں اچانک "اڑنگا" دیا، اور شیخ صاحب سیدھے دوسرے تڑنگے کی بانہوں میں جُھول گئے، شیخ صاحب نے غور سے دیکھا، تو بانہوں میں سمیٹنے والا "سالا" نہیں، بلکہ پولیس والا تھا، تو پہلی بار شیخ صاحب سسرال کے چکر لگاتے لگاتے رو پڑے۔ ظاہر ہے سالے کی بانہوں کی حِدّت اور پولیس والے کی بانہوں کی سختی میں کوئی نہ کوئی فرق تو ضرور ہوگا، اور اب تو "ساس" بھی شیخ صاحب سے منہ موڑ چکی ہے۔