Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zafar Bashir Warraich
  4. Sahafati Guftagu Mana Hai

Sahafati Guftagu Mana Hai

صحافتی گفتگو منع ہے

چائے کے ہوٹل میں داخل ہوتے ہی میں نے میزبان کی تلاش کے لئے آنکھیں گھمانا شروع کیں، لیکن پہلی سے آخری میز تک میزبان صاحب کو دریافت نہ کر پایا، مجبوراً خود ہی چائے کا آرڈر دے کر ایک طرف ہو کے بیٹھ گیا، چائے کے آنے سے پہلے میزبان صاحب تشریف لے آئے، میں نے انہیں دیکھتے ہی چائے کا آرڈر ڈبل کیا، اور ہم دونوں نے پاکستانیوں کے مقبول ترین موضوع یعنی "سیاست" پر بات شروع کر دی۔

دورانِ گفتگو چائے والا چائے لے کر آیا، چائے میز پر رکھی اور کہنے لگا "آپ دونوں کچھ پڑھے لکھے لگتے ہیں"، میں اور میرا میزبان دونوں چائے والے کو دیکھنے لگے، میزبان کو لفظ "کچھ" پر شدید اعتراض تھا، کیونکہ وہ کافی پڑھے لکھے تھے، جب کہ میں نے اسے سرسری لیا، اور چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے اسے جواب دیا، "تم کیوں پوچھ رہے ہو؟" چائے والے نے دیوار کی طرف اشارہ کیا، اور دوسری ٹیبل کی طرف بڑھ گیا، ہم دونوں نے دیوار پر دیکھا تو وہاں لکھا تھا "سیاسی گفتگو منع ہے"۔

میرا میزبان چِڑ گیا، میں نے ان کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے مشورہ دیا، "چلیں ہم سیاسی نہیں صحافتی گفتگو کر لیتے ہیں"، غصے سے بھرے پڑھے لکھے میزبان نے میرا مشورہ مان لیا، اور ہم نے صحافتی گفتگو شروع کر دی اور ہمارا باتوں کا رخ ارشد شریف شہید کی طرف مڑ گیا۔

"آخر صحافت شروع کہاں سے ہوتی ہے اور اسکی حدود کہاں تک ہیں؟" میں نے ہی موضوع کا آغاز کرتے ہوئے کہا۔

"دیکھیں صاحب، صحافت کی حدود متعین ہیں، اور ایک صحافی کو اپنی صحافیانہ حدود سے بدرجہ اتم باخبر ہونا چاہئیے"، میزبان نے کہنا شروع کیا۔

دیکھیں صاحب، شُہرہ آفاق امریکی اخبار "نیویارک ٹائمز" کے سابق بیوروکریٹ اور "دی اٹلانٹا جرنل" کے ایڈیٹر "بِل کووچ" نے اپنے ایک اور ساتھی "ٹام روز انٹل" جو خود بھی "نیوز ویک" کا نامہ نگار اور "دی لاس اینجلس ٹائمز" کا سابقہ میڈیا نگران ہے، کے ساتھ مل کر "دی ایلی مینٹس آف جرنلزم" نامی کتاب لکھی، یہ کتاب بیسٹ سیلر کتاب ثابت ہوئی، اور اس کتاب نے پبلشر اور دونوں لکھاری صحافیوں کو لاکھوں ڈالر کما کر دئیے، یہ کتاب میڈیائی حدود و ضوابط کے ارکان کا شاندار احاطہ کرتی ہے، اس کتاب کو اب دنیا بھر کے نئے آنے والے صحافیوں کو بھی کالج اور یونیورسٹی میں پڑھایا جاتا ہے۔

"اس کتاب میں میڈیائی حدود کیا ہیں؟" میں نے چائے کا گرم گھونٹ حلق سے اتارتے ہوئے اشتیاق سے میزبان کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا "دیکھیں صاحب، "دی ایلیمنٹس آف جرنلزم" کے مطابق سب سے پہلے "سچائی" پھر "اپنی عوام کے ساتھ وفاداری" پھر "سچائی اور سچ کی خوشبو کو ڈھونڈ کر پیش کرنا"، پھر "ذرائع خبر رسائی کا پردہ رکھنا" اس وقت تک جب تک سورس آف نیوز خود اجازت نہ دے۔

پھر اپنی صحافیانہ طاقت کا انتہائی احتیاط سے استعمال کرنا" پھر "خبر یا تبصرے پر قاری یا سامعی کو تعریف یا تنقید کا حق دینا" پھر "خبر کو باوقار، دلچسپ اور قابل اعتماد بنانا" پھر "خبر کو معاشرتی اچھائی کے پھیلاؤ کے لئے ایک طاقت کے طور پر استعمال کرنا" پھر "اپنی خبر یا رائے کو معاشرتی ڈائیلاگ بننے کی قوت بخشنا" پھر "اپنی خبر یا رائے سے قاری کو احساس ذمہ داری کا شعور بخشنا، یہ وہ دس بنیادی باتیں ہیں جو کسی بھی صحافی کو میدان صحافت کا مجاہد بناتی ہیں۔

یوں سمجھیں کہ یہ وہ دس قوتیں ہیں جن کا استعمال کرنا اگر کوئی بھی صحافی سیکھ جائے تو وہ بہت جلد آسمانِ صحافت کا تارا بن جائے"، میزبان نے بھاپ نکلتی گرم چائے کا کپ میز پر رکھتے ہوئے کہا۔ لیکن عمران خان تو مسلسل پاکستانی صحافت اور صحافیوں کے بارے شدید تشویش کا شکار ہیں، ارشد شریف کی شہادت کی بھی ایسی گَرد اڑائی گئی کہ اس گَرد میں قاتلوں تک پہنچنا مشکل ہو گیا، میں نے چائے والے کی طرف دیکھتے ہوئے آہستگی سے میزبان سے سوال کیا۔

"دیکھیں صاحب، عمران خان جتنا ارشد شریف کے قتل کو ہائی لائٹ کریں گے، حکومت اور متعلقہ اداروں پر اتنا زیادہ پریشر ہو گا کہ وہ جلد از جلد اس قتل کے محرکات اور قاتلوں کو تلاش کریں، اور یہ بات ارشد کی فیملی، پاکستانی صحافیوں اور عوام کے دل کی آواز ہے۔ اور جہاں تک عمران خان کا صحافیوں پر دباؤ کا بیان ہے، اس میں صحافیوں سے ہمدردی کم اور اپنی سیاست کو چمکانے کے لئے ایک پولش کی طرح استعمال کرنا زیادہ محسوس ہوتا ہے"، میزبان نے جواب دیا۔

"وہ کیسے؟"میں نے جلدی میں ایک اور سوال پھینکا۔

"دیکھیں صاحب، 2021 وہ سال تھا جب صحافیوں کے خلاف پرتشدد واقعات میں 31 فیصد تک اضافہ ہوا، آزادی صحافت کے انٹرنیشنل انڈیکس میں ہم مزید نیچے چلے گئے، اور صحافیوں کے خلاف واقعات کے ریکارڈ 148 واقعات رجسٹرڈ ہوئے، اس دور میں جس کو چاہا اٹھا لیا، جس کی چاہا ٹھکائی کروا دی، جسے چاہا نوکری سے نکلوا دیا، جسے ناپسند کیا اس کے پیچھے کسی نہ کسی محکمے کو لگا دیا، اور جب جی چاہا کسی کو بھی لفافی صحافی کہہ دیا، حتیٰ کہ پاکستان صحافیوں کے لیے غیر محفوظ ملک بن گیا تھا"، میزبان نے چائے کا آخری گھونٹ لیتے ہوئے جواب دیا، ان کے لہجے میں تلخی نمایاں تھی۔

"دیکھیں صاحب، پاکستان نے چار مارشل لا بھگتائے ہیں، لیکن 2021 کا سال ان مارشل لائی ادوار کو بھی پیچھے چھوڑ گیا۔

"لیکن ارشد شریف کا کیا قصور تھا؟" میں نے بھی چائے کا آخری گھونٹ لیتے ہوئے سوال کیا۔

میزبان نے میری طرف دیکھا اور گویا ہوئے دیکھے، "دیکھیں صاحب، صحافت اور سیاست کے درمیان انتہائی باریک لکیر موجود ہوتی ہے، جسے ہم حد کہہ سکتے ہیں، جیسے ہی کوئی صحافی اس باریک لکیر کو عبور کر کے صحافت سے سیاست کے سمندر میں کودتا ہے، تو چونکہ اس کی تربیت ہوتی ہے صحافی کی، لیکن سیاست کے سمندر میں تیرنا نہ جاننے کی وجہ سے ڈوب جاتا ہے، "

ارشد شریف قابل، محنتی اور اعلیٰ تعلیم یافتہ صحافی تھا، ہمارے ہاں جس طرح بہت سے صحافی میدان صحافت سے کوچہ سیاست میں کود چکے ہیں وہ صحافت کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے، صحافی کو ہمیشہ کسی سیاسی پارٹی کا ورکر کہلانے کے بجائے ہمیشہ صحافی کہلانے پر فخر کرنا چاہیے۔

"تو کیا کسی صحافی کو سیاست کی بات نہیں کرنی چاہئیے؟" میں نے ایک اور سوال پوچھا۔

"دیکھیں صاحب، صحافت اور سیاست کا چولی دامن کا ساتھ ہے، لیکن ایک صحافی سیاست نامی خاتون پر تانکا جھانکی تو کر سکتا ہے، لیکن کبھی اس کے گھر میں نہیں کود سکتا، دوسرے لفظوں میں صحافی سیاست سے فلرٹ تو کر سکتا ہے، لیکن نکاح نہیں، کیونکہ بعد میں ایسے نکاح کا کوئی گواہ نہیں بنتا۔

"لیکن اب حکومت کو صحافت مخالف بیانئے سے کیسے جان چھڑانی چاہیے؟" میں نے آخری سوال کیا۔

"دیکھیں صاحب، یہ ویسے تو بہت آسان تھا، لیکن حکومتی افلاطونوں کے بیانات نے اِسے مشکل کر دیا ہے، خود مریم نواز کے ٹویٹ نے نا صرف صحافیوں بلکہ مسلم لیگی حلقوں کو بھی حیران کر دیا تھا، جسے بعد میں انہوں نے ڈیلیٹ کر دیا تھا، لیکن منہ سے نکلی بات، کمان سے نکلا تیر اور ٹوئٹر سے نکلا ٹویٹ واپس نہیں ہو سکتا، یہ ٹویٹ کئی سال تک آپ کو ٹوٹ پھوٹ کا شکار کرتا رہتا ہے۔

عمران خان اور مریم نواز کا نام سنتے ہی چائے والے کا "نگاہی سنسر" ہمارے چہروں کا طواف کرنے لگا، اور پھر دیوار کی طرف دیکھ کر رک گیا۔

میں نے چائے والے کو پیسے دیتے ہوئے میزبان سے مختصر سوال کیا، "اب حکومت کیا کرے"؟

"دیکھیں صاحب، ارشد شریف کی والدہ نے چیف جسٹس کو خط لکھ کر حکومتی کمیشن پر عدم اعتماد کر دیا ہے، اگر حکومت فوری طور پر چیف جسٹس سے درخواست کر کے نیا کمیشن تشکیل دے دے، تو عوام، صحافی اور خود ارشد شریف کی فیملی مریم نواز کے ٹوئٹ اور عمران خان کی تقریر سے زیادہ اس کمیشن کی رپورٹ کو تسلیم کرے گی۔

چائے والے نے پیسے کاٹ کر مجھے بقایا دیتے ہوئے کہا "آج سے ہوٹل میں صحافتی گفتگو بھی منع ہے" کا بورڈ بھی لگا دوں گا۔

میزبان اور میں اس کی "صحافت دشمن" گفتگو کو نظر انداز کرتے ہوئے ہوٹل سے باہر نکل آئے۔

Check Also

Pablo Picasso, Rangon Ka Jadugar

By Asif Masood