Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zafar Bashir Warraich
  4. Safar Hai Shart

Safar Hai Shart

سفر ہے شرط

ٹھیک تین سال پہلے جب میں نے علامہ اقبال یونیورسٹی اسلام اباد سے ماس کمیونیکیشن میں گریجویشن مکمل کی، تو میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا، کہ میں ایک دن کراچی یونیورسٹی سے انٹرنیشنل ریلیشنز میں ٹاپ کر جاؤں گا، حالانکہ گریجویشن کے بعد میں نے اوپن یونیورسٹی کے ماسٹرز پروگرام میں رجسٹریشن بھی کروائی، پروگرام تھا لائبریری سائنس، لیکن یونیورسٹی کی طرف سے کتابیں آن لائن کرنے کی وجہ سے مجھے اس طریقہ کار میں ذرا مزہ نہ آیا اور میں نے وہ پروگرام تَرک کرکے کراچی یونیورسٹی کے ماسٹرز پروگرام میں رجسٹریشن کروا کے تیاری شروع کر دی۔

پہلے سال کے لیے مجھے تیاری کا زیادہ وقت نہ مل سکا، لیکن فائنل ایئر کے لیے میرے پاس بہت سا وقت اور ہر مضمون کی کتابیں اور نوٹس بھی سال کے شروع میں ہی مَیسّر تھے، دوسرا میری اخبار پڑھنے کی عادت نے گویا سونے پر سہاگہ کا کام دکھایا، اسی لیے جب فائنل ایئر کے امتحانات شروع ہوئے، تو میری تیاری پوری طرح مکمل تھی، بآلفاظ دیگر میں پوری طرح کیل کانٹے سے لیس تھا، جس کا مظاہرہ اور مشاہدہ دوران امتحانات خود میں نے بھی بنفس نفیس کرتا رہا۔

دوران امتحان ہر پیپر میں پانچ سے چھ بی کاپیاں بھرتے بھرتے میرا دایاں ہاتھ بری طرح درد کرنے لگتا، لِکھ لِکھ کر میری شہادت کی انگلی اور انگوٹھے پر نیل کے نشانات پڑ جاتے، بعد از امتحان میں گھر میں داخل ہوتے ہی پانی گرم کر اس میں نمک ڈال اور ہاتھ کی اچھی طرح جب تک ٹکور نہ کر لیتا، مجھے سکون محسوس نہ ہوتا، گویا انگلیاں اور ہاتھ اگلے پیپر کے لیے تیار ہو جاتے۔

اللہ تعالی کے فضل، کچھ قرابت داروں کی دلی دعائیں، اور میری تھوڑی سی محنت نے اثر دکھایا، اور یونیورسٹی کے رزلٹ اپ لوڈ ہوتے ہی چیک کیا تو خُون سیروں بڑھ گیا۔

رزلٹ کے تقریباً ایک ہفتے بعد وائس چانسلر کراچی یونیورسٹی جناب پروفیسر ڈاکٹر خالد عراقی صاحب کے دستِ مبارک سے مارک شیٹ اور یونیورسٹی کے لوگو سے سجا مَگ بطور انعام وصول کرتے ہوئے دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہو رہی تھیں، جو کہ اس وقت کے حساب سے بالکل ٹھیک کر رہی تھیں۔

پرنسپل صاحب کے عظیم الجثہ دفتر میں چھوٹی سی یادگار تقریب میں پروفیسر خالد عراقی صاحب کے ساتھ ڈائریکٹر امتحانات کراچی یونیورسٹی جناب ظفر اقبال صاحب اور ڈپٹی ڈائریکٹر امتحانات جناب محسن احسان بھی اس چھوٹی مگر میرے لیے یادگار تقریب کا حصہ تھے۔

وائس چانسلر صاحب نے آئندہ شروع ہونے والی انٹرنیشنل ریلیشنز کی ماسٹرز کی کلاس کے لیے مجھے گیسٹ سپیکرکے طور پر بھی نامزد کرتے ہوئے اپنی شفقت کا اظہار کیا، جسے میں نے خوشی اور مُسرّت سے بھرے دل کے ساتھ قبول کیا۔

کراچی یونیورسٹی کی تاریخی عمارت میں وائس چانسلر صاحب کے آفس میں چھوٹی مگر یادگار تقریب میں شرکت کے بعد یونیورسٹی گیٹ سے نکلتے ہوئے ایک بات بار بار دل و دماغ میں گونج رہی تھی، کہ منزلیں انسان کے قدموں تَلے روندی جا سکتی ہیں، لیکن سفر شرط ہے، سنگ میل عبور کرتے کرتے انسان کامیابی کی منزل کو چُھو سکتا ہے، لیکن چلتے رہنا شرط ہے جب جب حضرت انسان نے چلنا شروع کیا تب تک اللہ تعالی کی ذات بابرکات نے منزلوں کو انسانوں کے لیے مسخر کر دیا۔

ماسٹرز کے نئے آنے والے طلبہ و طالبات کے لیے امتحان میں بہترین کامیابی کے لیے بعض نکات تحریر کر رہا ہوں، جنہیں انشاءاللہ بطور گیسٹ اسپیکر جب بھی یونیورسٹی انتظامیہ نے یاد کیا، نئے طلبہ و طالبات کے گوش گذار کر دوں گا۔

ویسے بھی کسی بھی سفر کے دوران آنے والی مشکلات کو اگر ضبط تحریر کیا جائے، تو نئے مسافروں کا سفر آسان اور خوشگوار ہو جاتا ہے، جس کی بھرپور سعی کی جائے گی۔ اور اپنا تجربہ اگلے مسافروں کے ساتھ زندگی بھر شئیر کیا جائے گا۔

Check Also

Yaroshalam Aur Tel Aviv Mein Mulaqaten

By Mubashir Ali Zaidi