Sadaf Naeem Ki Rooh Se Mulaqat
صدف نعیم کی روح سے ملاقات

رات دیر تک پڑھتے پڑھتے ٹیبل پر رکھی کتاب پر تھوڑی دیر آرام کی خاطر سَر رکھا، تو نیند کے غلبے کی وجہ سے سَر کتاب پر رکھتے ہی ایک عالم سے دوسرے عالم میں جا پہنچا، اس عجیب و غریب دنیا میں فوری شناسا چہرہ دیکھا، نام پوچھا تو آواز آئی، صدف نعیم۔
صدف سے ملتے ہی حیرت اور خوشی کی ایک عجیب سی لہر میری روح میں بھی سرایت کرگئی، صحافیانہ سَرشِت فوراً قلم کاغذ لے کر بیٹھ گئی، اور صدف سے پے در پے سوال کرنے لگا۔ میرا پہلا سوال تھا، " صدف اپنی جان پر کھیل کر خبر حاصل کرنا کیسا تجربہ تھا"۔
"میں اپنے تمام صحافی ساتھیوں اور خاص طور پر فیلڈ میں رپورٹنگ کرنے والے دوستوں سے کہونگی، کہ خبر حاصل کرنے کا جنون رکھیں، لیکن کبھی بھی اسے زندگی پر فوقیت نہ دیں، زندگی اللہ تعالیٰ کا عظیم تحفہ ہے۔ اسے ایک خبر کے لئے کبھی بھی ضائع نہ کریں، خبر کی حفاظت کریں یا نہ کریں، زندگی کی حفاظت ضرور کریں، کیونکہ زندگی ہو تو خبریں ہی خبریں، اور اگر زندگی ختم تو خود ایک چار سطری خبر۔
اسکا آخری جملہ سنتے ہی میں نے دوسرا سوال کردیا، "اچھا صدف اعلیٰ سیاسی قیادت یا وہ سیاسی رہنما جسے آپ بہت پسند کرتے ہیں، موت کے بعد ان کے بارے میں آپکے کیا خیالات ہیں"۔
"کوئی لیڈر آپکو کتنا ہی کیوں پسند نہ ہو، اسکی آئیڈیالوجی یا تقریریں کتنی ہی سحر انگیز کیوں نہ ہو، ایک صحافی کو فقط صحافی رہنا چاہئیے، جیسے ہی صحافی سیاست اور صحافت میں تمیز بھولتا ہے۔ وہ صحافت جیسے عظیم مرتبے سے گِر کر کسی کا آلہ کار یا بھونپو بن جاتا ہے"، صدف نے پراعتماد لہجے میں جواب دیا، "اور ویسے بھی عظیم لیڈرز بھی ہماری طرح کے انسان ہوتے ہیں، وہ بھی خوبیوں اور خامیوں سے بھرے ہوتے ہیں، لیکن افسوس مجھے موت کے بعد یقین آیا، زندگی میں ہمیں ہمارے فیورٹ لیڈر ہر غلطی سے پاک نظر آتے ہیں، یہ ہماری سب سے بڑی غلطی ہوتی ہے۔
"میڈیا میں آیا ہے کہ آپ بہت محنتی صحافی تھیں"، میں نے صدف سے تیسرا سوال کیا۔
"ہاں یہ بڑی انٹرسٹنگ بات ہے، بدقسمتی سے یہ بات بھی مجھے موت کے بعد پتہ چلی، کہ میں بہت محنتی، ذہین، پروفیشنل اور دلیر صحافی ہوں، زندگی بھر میرے آس پاس رہنے والے میرے کولیگ یا میرے باسز ان الفاظ کو زندگی میں میرے سامنے استعمال کرتے تو شاید میری زندگی زیادہ خوشگوار گزرتی، پتہ نہیں ہمارا معاشرہ زندہ لوگوں کی تعریف کیوں نہیں کرتا، زندگی بھر ہمارے کان ایسی تعریف کے لئے ترس جاتے ہیں"، جواب دیتے ہوئے صدف کی آنکھوں میں نمی نمایاں تھی۔
"اچھا یہ بتائیں، جب ٹرک کا ٹائر تمہارے سَر سے گزر گیا، اور تم زندگی کے آخری لمحات سے گذر رہی تھیں، تو تمہارے لا شعور میں کیا چل رہا تھا"، میں نے اپنا سب سے مضبوط سوال پوچھا۔
"میری فیملی، صرف اور صرف میری فیملی، میری بیٹی، میرا بیٹا، میرا شوہر، میں اپنے بچوں سے صبح وعدہ کرکے آئی تھی، کہ میں آج جلدی آجاؤں گی، میرے بچے میری راہ تکتے تکتے میری لاش وصول کررہے تھے، ان آخری لمحات میں مجھے کیرئیر، صحافت، نوکری، جوش، مقبول لوگوں کی مقبولیت، پسندیدہ لیڈر سے انٹرویو حتیٰ کہ دنیا کی ہر چیز مجھے اپنی فیملی سے کم تر اور ہِیچ محسوس ہوئی، میں اپنے صحافی دوستوں سے ضرور کہنا چاہتی ہوں، کہ کیرئیر، لیڈر، عہدے اور دنیا کی ہر چیز سے اپنی فیملی کو زیادہ محبوب رکھیں، انکے لئے وقت نکالیں، ان کے لئے کیک، مٹھائی، پھول، کپڑے، جوتے اور تحفے تحائف خریدیں، انکے لئے وقت نکالیں، انکی غلطیاں معاف کریں، ان سے معافی مانگ لیں، ان سے گپ شپ کریں، ان کی دیکھ بھال کریں، ان پر خرچ کریں، انہیں باہر گھمانے لے جائیں، ان کی پرورش کے لئے ذہن لڑائیں، بلکہ میں یہ پیغام دونگی کہ فیملی کو نہ صرف محبوب رکھیں بلکہ ان سے عشق کریں، احترام کریں اور خدا کا شکر کریں، یہ جواب دیتے ہوئے صدف کے چہرے پر آنسوؤں کی رم جھم جاری ہوچکی تھی۔
میں نے دکھی لہجے میں سوال کیا، "اب آپکی فیملی کا کیا ہوگا"؟
"دیکھیں، موت ایک اٹل حقیقت ہے، اس سے آنکھیں نہیں چرائی جاسکتیں، لیکن حادثاتی موت آپکی فیملی کو توڑ کر رکھ دیتی ہے، اس سے ہمیشہ خدا کی پناہ مانگنی چاہئیے، میں نے سنا ہے کہ وزیر اعظم صاحب اور دوسرے لوگوں نے میری فیملی کے لئے امدادی رقم کا اعلان کیا ہے، جس سے بچوں کو ماں تو واپس نہیں مل سکتی، لیکن زندگی کی گاڑی دھکیلنے میں یہ رقم ضرور ان کے کام آئیگی، میں وزیراعظم اور تمام ممبران قومی اسمبلی و سینٹ سے درخواست کرتی ہوں، کہ صحافیوں کی انشورنس کا قانون اسمبلی سے پاس کرایا جائے، جو حادثاتی موت کی صورت میں کم از کم پانچ کروڑ روپے ہو"، صدف نے آہستگی سے جواب دیا۔
"اچھا یہ بتائیں، کیا آپکی موت شہادت ہے؟"، میں نے اسلامی ٹَچ والا سوال کیا۔
"دیکھیں، اس کا فیصلہ تو علمائے کرام کرسکتے ہیں، لیکن آج سے کئی سال قبل سینئیر صحافی جناب رضا رومی صاحب پر بم حملہ ہوا تھا، جس میں ان کا ڈرائیور ہلاک اور رضا زخمی ہوگئے تھے، واقعے کے فوری بعد رضا رومی اپنی فیملی کے ساتھ کینیڈا چلے گئے تھے، کینیڈا ائیرپورٹ پر صحافی کے سوال کے جواب میں رضا رومی صاحب نے جواب دیا تھا کہ "میں زبردستی کا شہید نہیں بننا چاہتا"، صدف نے اسلامی ٹچ والے سوال کا تاریخی واقعے کا حوالہ دیکر جواب دیتے ہوئے کہا۔
اس سے پہلے کہ کوئی اور سوال کرتا، گرمی کی شدت سے میری آنکھ کُھل گئی، میں نے چاروں طرف دیکھا، لائٹ جاچکی تھی، کمرے میں گُھپ اندھیرا تھا، مجھے خوف محسوس ہونے لگا، حتیٰ کہ تھوڑی دیر پہلے میں قبر کے ایک مَکین سے انٹرویو لے رہا تھا، اور وہاں روشنی اور خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔

