PTI Ba Muqabla Ishaq Dar
پی ٹی آئی بمقابلہ اسحاق ڈار

"لیکن عمران خان کا سب سے بڑا دوست تو شہباز شریف ہے، بلکہ شہباز گِل سے بھی بڑا، "صاحب نے سِگار کا کَش لیا، کمرے میں کیوبا کے سگار کی مشہور خوشبو دھوئیں کے ساتھ پھیل گئی، " مگر شہباز شریف اور عمران خان کا "اینٹ وٹّے" کا ویر ہے اور آپ ان کو دوست کہہ رہے ہیں، "میں نے صاحب کو حیران نظروں سے دیکھتے ہوئے جواب دیا۔
صاحب بیوروکریٹ ہیں، ایسے محکمے کے افسر ہیں، جس کا نام سن کر ہی کچھ لوگوں کی ٹانگیں کانپ جاتیں ہیں، چونکہ شطرنج کھیلتے ہیں، اس لئے سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں، میں کبھی کبھار ان سے کوئی خبر لینے یا نکلوانے ان کے ساتھ چائے پینے آ جاتا ہوں، ان کی مہربانی اکثر چائے میں خبر گھول کر پلا دیتے ہیں۔
صاحب نے میری مخالفانہ رائے کو نظر انداز کرتے ہوئے کہنا شروع کیا، "دیکھو، تحریک عدم اعتماد سے پہلے عمران خان کی مقبولیت زمین کو چُھو رہی تھی، اور اسکی تین بنیادی وجوہات تھیں، پہلی "مہنگائی"، عوام مہنگائی سے سخت پریشان تھے، حتیٰ کہ پی ٹی آئی کا اوریجنل سپورٹر بھی کسی کو منہ نہیں دکھاتا تھا، دوسری "بیڈگورننس"، پی ٹی آئی نے حکومت بناتے ہی بیوروکریسی کو اپنا دشمن سمجھ لیا تھا۔
نتیجتاً بیوروکریسی بھی برف میں لگی بوتل کی طرح ٹھنڈی ہو گئی، کام رک گئے، دفتروں میں فائلوں کے انبار لگنا شروع ہو گئے، کوئی نیا میگا پروجیکٹ شروع نہ ہو سکا، تیسری وجہ "ٹیم" عمران خان کی باتوں اور ان کی ٹیم میں زمین آسمان کا فرق تھا، پی ٹی آئی کا ووٹر جب عمران خان کی تقریر اور فلاسفی سنتا تھا، تو کسی اور دنیا میں پہنچ جاتا تھا، اور جب حقیقی دنیا میں آنکھ کھولتا تو سامنے شیخ رشید اور فواد چوہدری کو دیکھ کر حیران و پریشان ہو جاتا تھا، یہ بھی پی ٹی آئی حکومت کا ریکارڈ ہے کہ ساڑھے تین سال میں پانچ وزرائے خزانہ تبدیل کئے گئے، لیکن مرض بڑھتا گیا جُوں جُوں دوا کی"۔
"لیکن ان سب باتوں سے شہباز شریف عمران خان کے دوست کیسے ثابت ہوتے ہیں؟"، میں نے کرسی پر پہلو بدلتے ہوئے سوال کیا۔
"دیکھو، اگر شہباز بڑے میاں صاحب کی بات مان لیتے اور صرف ایک سال عمران خان کو اور دے دیتے، تو اگلے الیکشن میں پی ٹی آئی کے امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہو جاتیں، اور وزیراعظم کی کرسی پکے ہوئے پھل کی طرح شہباز شریف کی گود میں آ گرتی، اور ساتھ اتحادیوں کی مجبوری بھی نہ ہوتی، صاحب نے سگار کو درمیان سے مسلتے ہوئے جواب دیا۔
پتہ نہیں کس لال بجُھکڑ نے چھوٹے میاں صاحب کو قائل کر لیا، کہ ملک اور معیشت خطرے میں ہے اور آپ سپر مین ہیں، اس وقت ملک کو منجدھار سے آپکے علاوہ کوئی نہیں نکال سکتا، میاں صاحب اسی پرانے فارمولے کی نذر ہو کر اپنی، بڑے میاں صاحب کی اور مسلم لیگ کی سیاست کو تو دباؤ پر لگا گئے، لیکن عمران خان کی ختم ہوتی مقبولیت کو ایک بار پھر آسمان کی بلندیوں پر چھوڑ آئے، وہی پی ٹی آئی جس کا اگلے الیکشن کے لئے لوگ ٹکٹ لینے کو تیار نہیں تھے، اسکے ہلکے امیدواروں نے ضمنی الیکشن میں مسلم لیگی سورماؤں کو خاک چٹا دی"۔
"تو کیا یہ مُومینٹم اگلے الیکشن تک برقرار رہے گا؟"، میں نے آہستگی سے سوال کیا۔
"اگلا الیکشن، کون سا اگلا الیکشن؟ مجھے تو اگلے دس سال تک الیکشن نظر نہیں آ رہا"، صاحب نے سگار کا لمبا کَش لیکر سکون سے جواب دیا۔
"کیا کہہ رہے ہیں آپ؟ عمران خان اور پی ٹی آئی خصوصاً اور دوسری ساری پارٹیاں عموماً اگلے الیکشن کی تیاریاں کر رہے ہیں، بلکہ عمران خان تو جلد از جلد الیکشن کے لئے حکومت پر مسلسل پریشر ڈال رہے ہیں، بلکہ اب تو دوسرا لانگ مارچ بھی آیا کہ آیا، " کیونکہ دونوں طرف حلف اور آنسو گیس کے شیل تیار ہیں"، اور آپ کہہ رہے ہیں کہ آپ اگلا الیکشن نہیں دیکھ رہے"، میں نے انتہائی حیرت سے صاحب کی طرف دیکھا۔
"دیکھو، اگلا الیکشن اگر مقررہ مدت پر ہوا تو مسلم لیگ میں صرف ایک فرد، ہاں صرف ایک فرد مسلم لیگ کو بچا سکتا ہے، وہ بھی اگر اسکو یہ سال مل گیا تو، " صاحب نے سگار سے کھیلتے ہوئے کہا۔
"وہ کون ہے؟"، میں نے جلد بازی میں پوچھا۔
"اسحاق ڈار"، صرف اسحاق ڈار وہ واحد شخص ہے، جس کی کارکردگی پر مسلم لیگ کے اگلے الیکشن کا دارومدار ہے، اسی لئے عمران خان کی پوری کوشش ہے کہ کسی طرح موجودہ سیٹ اپ ختم کر کے فوری الیکشن کرائے جائیں، اور بڑے میاں صاحب کی پوری کوشش ہے کہ یہ سال اسحاق ڈار کو ملے اور وہ بجلی، گیس، آٹا اور دوسرے کچن آئٹمز کی قیمتوں میں استحکام لے آئے"، صاحب نے سگار کو بجھاتے ہوئے جواب دیا۔
"لیکن اگر آپ کی بات مان لی جائے، کہ اگلا الیکشن ہنوز الیکشن دور است تو پھر نیا سیٹ اپ کس کے حوالے کیا جائے گا، کیا دوبارہ طاقت والے بیٹھیں گے؟ میں نے آخری سوال کیا۔
"ٹیکنو کریٹ، اگر مقررہ وقت پر الیکشن نہ ہوئے، تو اگلے دس سال ٹیکنو کریٹس کے ہونگے، صاحب سگار کو ایش ٹرے میں زور سے دباتے ہوئے فیصلہ کن لہجے میں جواب دیتے ہوئے اٹھے، مجھ سے ہاتھ ملایا اور اگلی میٹنگ کے لئے کمرے سے نکل گئے۔

