Pakistani Kahan Jaain
پاکستانی کہاں جائیں
معروف پاکستانی ڈرامے "بلبلے" کی مرکزی کردار عائشہ عمر نے بھی پاکستان کو خیرآباد کہنے کا فیصلہ کرلیا۔ اخباری اطلاعات کے مطابق عائشہ نے پاکستان چھوڑ کر ڈنمارک میں مستقل رہائش کا فیصلہ کرلیا ہے۔ یاد رہے کہ ان سے پہلے ان کا بھائی بھی وہاں منتقل ہوچکا ہے۔ عائشہ عمر نے اپنے پاکستان چھوڑنے کا ذکر کرتے ہوئے کہا، کہ میں پاکستان سے بہت محبت کرتی ہوں، یہ میرا ملک ہے، اس نے مجھے بہت کچھ دیا، لیکن مستقل بدترین حالات سے دلبرداشتہ ہوکر یہ مشکل فیصلہ کرنے پر مجبور ہوئی، گفتگو کے وقت عائشہ کی آنکھیں پُرنم تھیں۔
یہ نہیں ہے کہ عائشہ کوئی پہلی پاکستانی ہیں، جنہوں نے یہ مشکل فیصلہ کیا ہے۔ پچھلی کئی دہائیوں سے ہجرت کا یہ عمل بدستور جاری ہے۔ لیکن پچھلے تین چار سال سے یہ عمل تیز تر سے تیز ترین ہوچکا ہے۔ اس بارے گوگل کو گوگلیا تو پتہ چلا کہ سال 2021 میں قریب قریب 2 لاکھ 25 ہزار پاکستانی وطن عزیز کو چھوڑ کر باہر جا بسے، لیکن اگلے سال 2022 میں یہ تعداد اچانک بڑھکر 7 لاکھ 65 ہزار تک جا پہنچی، جس میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے، اس بڑھتی مہاجریت نے سب اچھا ہے، کی بات کرنے والوں کے منہ پر تمانچہ دے مارا ہے۔ اس تعداد کی بڑھوتری کے بہاؤ میں صرف عام آدمی ہی نہیں، بلکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ بھی بڑی تیزی سے ملک چھوڑ رہا ہے۔
دستیاب اعداد و شمار کے مطابق سکون سے دانا دُنکا چُگنے والوں میں ڈاکٹر، انجنیئر، ایسوسی ایٹ الیکٹرک انجنیئر، کمپیوٹر ایکسپرٹ، اکاؤنٹنٹ، زرعی سائنس دان، استاد (ٹیچرز)، نرسیں، ٹیکنیشن اور دوسری کئی فیلڈز کے ماہر ترین لوگ شامل ہیں۔
ایک عرب اخبار کی ویب سائٹ پر اس پرواز کو "برین ڈرین" کا نام دیا گیا ہے، یعنی "عقل کی منتقلی"۔ ان ماہرین کے علاوہ لاکھوں غیر تربیت یافتہ ورکر بھی اس وطن چھوڑ قافلے کا حصہ بن چکے ہیں۔ اگر ان سب کے اگلے پڑاؤ کی بات کریں تو زیادہ تر اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اہم ترین پاکستانی امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا، یورپی ممالک، اس سے نیچے والے دبئی، سعودی عرب اور قطر اور جن کا کچھ بس نہ چلا، وہ سوڈان اور افریقی ممالک تک جا پہنچے، کچھ زائرین کے بھیس میں عراق جا چکے ہیں۔ ان کی تعداد بھی اتنی تھی کہ کچھ عرصہ پہلے عراق نے پاکستانی اصلی زائرین کو بھی ویزے دینے بند کردیے تھے۔
کچھ عرصہ پہلے صرف صوبہ پنجاب کے لوگ ہی ائیرپورٹس پر دکھائی دیتے تھے، لیکن حاضر دستیاب ڈیٹا میں صوبہ کے پی کے سے دو لاکھ سے اوپر، سندھ سے 54 ہزار، آزاد کشمیر سے 27 ہزار، بلوچستان سے 7 ہزار اور اسلام آباد سے 6 ہزار اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ پاک سرزمین کو الوداع کہہ چکے ہیں۔
یہ تعداد قانوناً باہر جانے والوں کی ہے، غیر قانونی باہر جانے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔
اب اگر اس ڈیٹا کی موجودگی میں بھی کوئی سب اچھا ہے یا سب اچھا کرلیں گے، کا راگ الاپے تو ان سینکڑوں پاکستانیوں کو کیسے سمجھائیں، جو کشتی کے حادثوں، جنگل بیابان میں دربدری یا ایک ملک سے دوسرے ملک غیر قانونی داخل ہونے کے دوران جان کی بازی لگانے کے لئے بھی تیار ہیں، گویا اپنے ملک کو جان پر کھیل کر چھوڑنے سے بھی لوگ باز نہیں آرہے۔
کسی بھی ملک میں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ، تربیت یافتہ ورکرز اور کم تعلیم یافتہ اور غیر تربیت یافتہ لوگ جب کُوچ کرجائیں تو ان کی کمی پورا کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اب اگر ایسے میں اداکار ہی اسٹیج چھوڑ کر آگے بڑھ گئے، تو ان کی کمی کون پورا کریگا۔
میرا ایک دوست کہتا ہے اگر عائشہ عمر ملک چھوڑ گئیں تو کیا ہوا، ان کی جگہ ہمارے پاس ایک اور باصلاحیت شخصیت موجود ہیں۔ میں نے حیرانی سے پوچھا، "کون" دوست نے فوراً جواب دیا "فردوس عاشق اعوان"۔
کالم مکمل کرکے اپ لوڈنگ کے دوران سندھ اسمبلی میں بھرپور اپوزیشن کا کردار ادا کرنے والی معروف سیاست دان نصرت سحر عباسی بھی پاکستان کو الوداع کہہ کر کینیڈا جا بسی ہیں۔ خدا ہمارے حال پر رحم کرے۔