Wednesday, 25 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zafar Bashir Warraich
  4. Muqaddas Plaster

Muqaddas Plaster

مقدس پَلاسٹر

خیر سے ہمارے عمران خان دوبارہ اپنے قدموں پر کھڑے ہو گئے ہیں۔ اپنی دونوں ٹانگوں پر کھڑے ہو کر خان صاحب نے تصویر بنوا کر سوشل میڈیائی میزائل پر چڑھائی، جو دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بھر میں ان کے چاہنے والوں کو دھماکہ خیز خبر کی طرح پہنچی، دھماکے ویسے تو خیر اچھے نہیں ہوتے، لیکن بعض داغوں کی طرح بعض دھماکے بھی اچھے ہوتے ہیں۔

ان کی اپنی ٹانگوں پر کھڑے تصویر نے جہاں ان کے چاہنے والوں کو خوشی سے نِہال کر دیا، وہیں ان کے مخالفین کے لئے بھی اس تصویر میں جیسے ایک پیغام ہو "ہاں بھئی، سیدھے ہو جاؤ، خان فیر آ گیا جے"۔ ویسے تو ساری دنیا ہی ٹانگوں پر چل رہی ہے، لیکن خان کے ٹانگوں پر کھڑا ہونے پر جہاں ان کے فالوورز خوشی سے نِہال ہیں، وہیں کچھ اور لوگ بھی خوش ہو نہ ہو، کم از کم پُر اُمید ضرور ہیں۔

ان پُر امید لوگوں میں سب سے پہلا نمبر ہے، کنٹینر کے ڈرائیور کا جو اُس دن سے بیکار بیٹھا ہے، جس دن سے خان کی ٹانگ پر پلاسٹر چڑھا، دوسرے ساؤنڈ سسٹم والے، تیسرے پرائیویٹ گاڑیوں والے، پھر ان کے پارٹی رہنما، پھر وہ فارغ جو محض شُغَل میلہ دیکھنے ہر شام لانگ مارچ کا حصہ بن کر دن بھر کی تھکن کو بُھلا کر اگلے دن کی دال روٹی کے چیلنج کو پورا کرنے کے لئے ایک بار پھر کولہو کا بیل بننے کے لئے تیار ہو جاتے تھے۔

لیکن پہلے تکلیف اور پھر خوشی کے اس واقعے میں اگر کوئی چیز سب سے زیادہ قیمتی بن کر سامنے آئی ہے، وہ ہے خان صاحب کی ٹانگ پر چڑھا پلاسٹر، جسےآج سے کچھ روز قبل ڈاکٹروں نے بڑی احتیاط سے خان کی ٹانگ سے علیحدہ کیا، پلاسٹر ٹانگ سے علیحدہ ہوتے ہی ان کے چاہنے والوں نے پلاسٹر کو انتہائی عقیدت و احترام سے اُٹھا کر تصویریں بنوائیں، اور سوشل میڈیا کے تمام بڑے پلیٹ فارمز پر شیئر کیں، سینئر صحافی سمیع ابراہیم بھی اس تصویر میں عقیدتی مسکراہٹ کے ساتھ موجود ہیں۔

دنیا بھر میں خان کے چاہنے والے پلاسٹر اٹھائے کارکنوں پر رشک کرنے لگے، اور پاکستان میں موجود صحافی سمیع ابراہیم کے "اعزاز" پر جَل کر کوئلہ ہو گئے۔ کئی کارکنوں نے گزرتے گزرتے پلاسٹر عقیدت و احترام سے چُھوا، تاکہ سنَد رہے اور بوقتِ آخرت کام آوے۔

ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی تو ایک بَچّے کو دی گئی خان کی دستخط شدہ شرٹ نے سوشل میڈیا پر پہلے لاکھوں اور پھر کروڑوں روپوں کی ویلیو پائی، پھر یہ پلاسٹر جو پورا مہینہ خان کی ٹانگ کے ساتھ چِمٹے رہنے کا اعزاز حاصل کر چکا ہے، بھلا کہاں پیچھے رہنے والا ہے، یہ بھی عنقریب لاکھوں سے کروڑوں کا سفر طے کر سکتا ہے، اور اگر اس پر خان صاحب کے دستخط ہو جائیں، تو ممکن ہے اسکی قیمت کو پَر لگ جائیں۔

اور اگر دستخط کے ساتھ اس حادثے کی مختصر تاریخ بھی کندہ کر دی جائے، تو عین ممکن ہے اس مُقدس پَلاسٹر کو لندن، پیرس، یا نیویارک کا کوئی میوزیم اسکی بولی کے لئے کُود جائے، پھر تو وارے نیارے ہو جائیں، کیونکہ پونڈ، یورو اور ڈالر جب ہماری کرنسی میں تبدیل ہوتے ہیں، تو چَھپڑ پھاڑ کر ملنے والا مُحاورہ پوری طرح سمجھ آ جاتا ہے۔

لیکن اگر اس کاروباری سوچ کو عوامی سوچ میں تبدیل کر لیا جائے، اور اس مُقدس و مُتبرک پلاسٹر کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دے دی جائے، اور عین ممکن ہے کہ کمیٹی اس مُقدس پلاسٹر کی زیارت شہر شہر کرنے کا فیصلہ کر لے، تو عوام کے جُھنڈ کے جُھنڈ دیکھ کر حکومت لانگ مارچ کو بھی بھول جائے، اور فوری الیکشن پر مجبور ہو جائے۔

لیکن کمیٹی کو بیرون ملک رہنے والے عمران لوورز کو بھی اس کی زیارت کروانا پڑے گی، تاکہ اوورسیز پاکستانی جنہیں ہر تقریب اور ہر ہاؤسنگ سوسائٹی میں یاد رکھا جاتا ہے، وہ بھی اس مُتبرک پلاسٹر کی زیارت سے محروم نہ رہیں، اس مُقدس سفر میں اوورسیز پاکستانیوں سے ملنے والا فنڈ کمیٹی کچھ عرصہ حکومت کو دیکر زرمُبادلہ کے ذخائر کو بھی مستحکم کرنے میں"مدد" کر سکتی ہے، لیکن اگر شوکت ترین مان جائیں تو۔

البتہ اگر کمیٹی نے یہ فیصلہ کر لیا، کہ اس پلاسٹر کی زندہ نمائش کے بجائے اسے خان کے چاہنے والوں میں ٹُکڑے کر کے تقسیم کر دیا جائے، تو پھر اس تبرک کے حصول کے لئے پارٹی میں اندرونی اختلاف کُھل کر سامنے آ سکتا ہے، اور عوامی بَلوے کا بھی اندیشہ ہے، کیونکہ چاہنے والے زیادہ اور مُقدس پلاسٹر صرف ایک، کم بخت پھر یہ پُرانا محاورہ ایک انار سو بیمار سامنے آ گیا، یہ بزرگ لوگ بھی کئی صدیاں پہلے، اگلی کئی صدیوں میں جھانک کر ایک ایک جملے میں پوری کہانی سَمو دیا کرتے تھے۔

آخر میں ہماری تجویز، کہ اگر کمیٹی یہ فیصلہ کر ہی لے، کہ اس "پلاسٹرائے مُقدس" کے ٹکڑے لوگوں کو ارسال کرنے ہیں، تو ایک ٹکڑا جناب شیخ رشید کو ضرور بھجوا دیں، شیخ صاحب ویسے تو الگ سے اپنی سیاسی پارٹی، الگ سیاسی نشان اور الگ پہچان رکھتے ہیں، لیکن عمران خان سے عقیدت و محبت میں وہ جمائما خان، بشریٰ بی بی اور فیصل جاوید سے بھی آگے ہیں، اور اگر انہیں اس مُقدس تحفے سے محروم رکھا گیا، تو یہ جنابِ شیخ کے ساتھ زیادتی ہوگی، امید ہے پلاسٹر کمیٹی لال حویلی کا پتہ اور سیاسی ماضی ضرور جانتی ہوگی۔

Check Also

Siyasi Adam Istehkam Ka Bayaniya

By Irfan Siddiqui