Wednesday, 25 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zafar Bashir Warraich
  4. Mera Leader Zindabad, Mera Masala Murdabad

Mera Leader Zindabad, Mera Masala Murdabad

میرا لیڈر زندہ باد، میرا مسئلہ مردہ باد

"میرے خیال میں تو نیا آرمی چیف جنرل عاصم منیر بنے گا"، آٹے کی چکی والے نے پاس بیٹھے گندم کے بیوپاری کو پیسوں کی گڈّی پَکڑاتے ہوئے کہا، "ارے نہیں صاحب، سرپرائز دینا نواز شریف کی پرانی عادت ہے"، گندم کا بیوپاری نوٹ گننے کے لئے انگلیوں کو تُھوک لگاتے ہوئے بولا۔

یہ علاقے کی مشہور آٹا چَکّی ہے، اور اس وقت یہاں کئی لوگ آٹا خریدنے کے لئے کھڑے ہیں، چَکّی میں گندم ڈالنے والا ملازم ٹین بھر بھر کر گندم چَکّی کے سَر میں ڈال رہا ہے، گندم کے دانے چَکّی کے سَر سے پیٹ اور پھر چَکّی کی ٹانگوں سے باریک آٹا بن کر باہر آ رہے ہیں، ملازم آٹا بھر بھر کر گاہکوں کو دے رہے ہیں، آٹا اڑ اڑ کر ملازموں کے اوپر پڑ رہا ہے، وہ سفید بھوت لگ رہے ہیں۔

"لیکن سنا ہے کہ زرداری صاحب اور مولانا بھی اسلام آباد پہنچ گئے ہیں، اور ہو سکتا ہے جنرل سَاحِر شمشاد نئے آرمی چیف بن جائیں"، بیوپاری نے نوٹوں کی گڈی جیب میں ٹُھونستے ہوئے کہا۔

"اَرے بھائی ذرا یہ دَس کلو آٹا دے دیں"، مِرزا صاحب کی بَاریک آواز اس بہت بڑے قومی مسئلے کی گرما گرم بحث میں بلند ہوئی۔

"بارہ سو روپے"، ملازم نے مرزا صاحب کے آگے دَس کلو آٹے کا خاکی تھیلہ رکھتے ہوئے کہا۔

"کیا، بارہ سو روپے؟ پچھلی بار تو میں ساڑھے آٹھ سو کا لے کر گیا تھا"، مِرزَا صاحب کی آواز میں احتجاج اور مسکینی دونوں شامل تھے۔

"اَرے بڑے میاں، گندم مل نہیں رہی، شُکر کرو اس ریٹ پر بھی آٹا مل رہا ہے"، بیوپاری نے اپنی موٹی توند پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔

"کُیوں بھائی گندم کہاں گئی؟ ہمارے ملک میں تو بہت گندم ہوتی ہے"، مرزا صاحب نے دَلیل سے جواب دینے کی کوشش کی۔

"اَرے آپ آٹے کو رو رہے ہیں، ہم اس وقت ملک کے سب سے بڑے مسئلے پر بات کر رہے ہیں، اور آپ سو دو سو کے لئے بحث کر رہے ہیں، لگتا ہے آپ کو ملک سے زیادہ آٹے کی فکر ہے، چَکّی مالک نے غُصّے سے مرزا صاحب کو گھورتے ہوئے کہا۔

" لیکن میں تو آپ سے آٹے کی قیمت کی بات کر رہا ہوں"، مرزا صاحب نے آہستگی سے پھر جواب دیا۔

"اِن کو پَچاس روپے واپس دے دو، اس سے سستا نہیں ملے گا، لینا ہے تو لیں"، چَکّی والے پچاس کا نوٹ مرزا صاحب کے سامنے پھینکتے ہوئے کہا اور وہ دوبارہ نئے آرمی چیف کے مختلف ناموں پر بحث کرنے لگا۔

مرزا نے آٹا اٹھایا اور سبزی والے کی طرف ہو لئے، کہ سبزی کے بعد بجلی کا بِل بھی جمع کروانا ہے، اور شام ہونے میں وقت کم رہ گیا تھا۔

"ابے مجھے تو یہ ڈرامہ لگتا ہے، عمران خان کو کوئی گولی وولی نہیں لگی، سبزی والا سبزی پر پانی چھڑکتے ہوئے برابر کے ٹھیلے والے سے کہہ رہا تھا۔

" بھائی یہ ٹینڈے کا کیا بھاؤ ہے؟" مرزا صاحب نے اسکی بات ختم ہونے پر قیمت پوچھی۔

"ساٹھ روپے پاؤ" اگر گولی لگی ہو تو بندہ چل پھر نہیں سکتا"، سبزی والے نے مرزا اور برابری ٹھیلے والے کو ایک ساتھ قیمت اور ماہرانہ رائے دی۔

"کیا ساٹھ روپے پاؤ؟ یعنی 240 روپے کلو"، مرزا نے چونک کر پوچھا۔

"جی، سب کچھ سیلاب میں بہہ گیا، اور آپ حیران ہو رہے ہیں"، سبزی والے نے ان کو دوبارہ سیلاب یاد کرایا۔

" لیکن عمران خان کی پَٹّی کرتے ویڈیو میں تو یار نشان بڑے گہرے نظر آ رہے تھے"، برابر ٹھیلے والا بھی کسی جے آئی ٹی کا ماہر لگتا تھا۔

"لیکن ٹینڈے، لوکی، بینگن، بھنڈی، کو تو آج کی نسل کھانا ہی نہیں سمجھتی، بلکہ جس دن یہ سبزیاں گھر میں پکی ہوں، وہ باہر سے برگر، بروسٹ، یا بریانی منگا کر کھاتے ہیں، پھر یہ اتنی مہنگی کیوں؟"، مرزا صاحب نے مہنگی سبزی کی شکایت کی۔

"بڑے میاں، اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ میرے لیڈر کی جان کو خطرہ ہے، اور آپ سبزی کو رو رہے ہیں"، سبزی والے نے بحث جاری رکھنے کے لئے جلدی جلدی بڑے میاں سے جان چھڑانے کی کوشش کی۔

"اچھا بھائی یہ لو پیسے"، مرزا صاحب نے چار تہہ کیا ہوا پانچ سو کا نوٹ سبزی والے کو دیتے ہوئے کہا۔

" ارے بھائی میں تو کہتا ہوں، پوری سپریم کورٹ کو یہ کیس دیکھنا چاہیے، آخر خان پاکستان کا سب سے بڑا لیڈر ہے، سبزی والے نے مرزا کو بیس روپے واپس کرتے ہوئے سبزی کا شاپر پکڑایا، گویا کہہ رہا ہو، صاحب راستہ ناپیں۔

"ابھی بِل بھی جمع کروانا ہے"، مرزا صاحب نے بینک کی طرف قدم بڑھا دئیے۔

"انکل، آپکے پاس شناختی کارڈ ہے؟"، بینک کاؤنٹر پر بیٹھی خوبصورت، تعلیم یافتہ اور جوان لڑکی نے شائستگی سے مرزا صاحب سے پوچھا۔

"دیکھیں، کلائمنٹ چینج کا اثر سب سے زیادہ پاکستان پر پڑا ہے"، کاؤنٹر پر بیٹھی لڑکی نے برابر بیٹھے کیشئیر سے بات کرتے ہوئے کہا۔

"ہاں ترقی یافتہ ممالک کو فیصلہ کرنا پڑے گا کہ سرمایہ دارانہ نظام بچانا ہے یا ماحول"، پڑھے لکھے کیشئیر نے سنجیدہ لہجے میں جواب دیا۔

"لیکن بیٹا شناختی کارڈ تو میں گھر بھول آیا ہوں"، مرزا صاحب نے جیبیں ٹٹولتے ہوئے جواب دیا۔

"آئی ایم سوری، بل کے لئے شناختی کارڈ ضروری ہے، "خوبصورت بینک گَرل کا اندازہ تھوڑا سخت ہو رہا تھا۔

"لیکن کیوں بیٹا؟"، مرزا صاحب کے لہجے میں لجاجت تھی۔

"ارے انکل، منی لانڈرنگ سے پہلے ہی پوری دنیا میں ہم بد نام ہو گئے ہیں، اور آپ پھر بھی پوچھ رہے کہ شناختی کارڈ کیوں ضروری ہے؟ شکل سے تو آپ اچھے بھلے سمجھدار لگ رہے ہیں"، کاؤنٹر پر بیٹھی خوبصورت پڑھی لکھی اور نازک اندام لڑکی کے اندر سے اچانک "بدتمیز ڈائن" باہر نکل آئی۔

"بینک گَرل نے بغیر بھرا بِل مرزا صاحب کو واپس کیا، اور کلائمیٹ چینج کے حساس مسئلے پر دوبارہ اپنے جوان ہم بینک سے دلیللانہ گفتگو کرنے لگی۔

مرزا صاحب نے سبزی کی ٹوکری اور آٹے کا تھیلا اٹھایا، بینک سے باہر نکل آئے۔

بیگم نے گوشت کا بھی بولا تھا، مرزا بڑبڑائے۔

راستے میں قصائیوں کی دوکانوں پر گوشت کے بڑے بڑے ٹکڑے لٹک رہے تھے، خوبصورت گوشت کے ٹکڑوں کے قریب سے گزرتے مرزا صاحب کے کان میں اچانک آواز پڑی۔

"بھئی کَلّن، میرا خیال ہے نواز شریف اب واپس آنے کا نہیں"، رحیم قصائی نے زور سے بُغدا مُڈّی پر مارتے ہوئے کہا۔

" ارے نہیں، دیکھنا وہ پھر بڑی شان سے واپس آئے گا، یار کچھ بھی ہے اس کے دور میں کام اچھا تھا"، کَلّن قصائی شاید میاں صاحب کو اپنے دل کے مندر میں بٹھا چکا تھا۔

"لیکن پہلے مریم آئیگی یا نواز شریف یا دونوں ایک ساتھ؟" رحیم نے بُغدا روک کر کَلّن سے سوال کیا۔

"میرے خیال میں دونوں باپ بیٹی ایک ہی جہاز سے آئیں گے"، کلّن نے اندر کی خبر دیتے ہوئے کہا۔

رحیم قصائی کا رکا ہاتھ پھر چلنے لگا۔ مرزا صاحب گوشت کا بھاؤ پوچھے بغیر ہی گھر کی طرف چل دیے، گوشت کی قیمت پوچھنا اپنے آپ کو بے قیمت کرنے کے برابر تھا۔

راستہ بھر مرزا صاحب سوچتے رہے کہ ملک کے بڑے بڑے مسئلے نیا آرمی چیف، عمران خان پر حملہ، موسمیاتی تبدیلی اور نواز شریف کی واپسی ہے۔ آٹے، دال، سبزی اور گوشت کا بھاؤ پوچھنے والے تو اس منڈی میں پاگل، ان پڑھ اور پرانے زمانے کے لوگ لگتے ہیں۔ مفادات، لالچ، ہَوس، خود غرضی اور بدتمیزی کے اس طوفان میں ہم کیسے بچ پائیں گے، مرزا نے بیگم سے بیچارگی سے پوچھا اور صوفے پر دھڑام سے گر گئے۔

Check Also

Siyasi Adam Istehkam Ka Bayaniya

By Irfan Siddiqui