1.  Home
  2. Blog
  3. Zafar Bashir Warraich
  4. Maa Boli

Maa Boli

ماں بولی

کراچی میں گئے ہفتے ایک نجی اسکول میں ایک بچے کو اردو بولنے پر تحقیر کا نشانہ بنایا گیا، بچے سے ماں بولی بولنے پر نہ صرف بدسلوکی کی گئی، بلکہ اس کے منہ پر کالک بھی لگا دی گئی، واقعے کی اطلاع بذریعہ سوشل میڈیا پھیلتے ہی لوگوں میں غم و غصے کی شدید لہر پھیل گئی، اہلِ دانش اس بات پر حیران و پریشان ہوگئے، کہ ماں بولی سے اس قدر نفرت، حیرت ہے۔

آخری اطلاعات تک واقعے کے بعد انکوائری رپورٹ میں ٹیچر قصوروار قرار، جبکہ اسکول کو ایک لاکھ جرمانے کے ساتھ ساتھ رجسٹریشن منسوخی کی سزا بھی سنادی گئی۔

ایک اور پُرانا واقعہ بھی یاد کر لیں۔

قریب کوئی دو سال پہلے موٹروے پر اچانک ایک تعلیم یافتہ خاتون موٹروے پولیس اہلکار پر برس پڑی، لباس و شکل سے کسی اچھے گھرانے سے تعلق رکھنے والی خاتون نے انتہائی غصے میں موٹروے اہلکار کو کَھری کَھری سنا دیں۔ موصوفہ کو غصہ کسی ٹریفک چالان یا جرمانے پر نہیں، بلکہ اہلکار کے پنجابی بولنے پر آیا، پنجابی میں بات کرنے پر موصوفہ نے ٹریفک اہلکار کو تہذیب سے عاری قرار دیا، حالانکہ زبانیں ہر تہزیب کا نہ صرف تہزیبی ورثہ قرار پاتی ہیں، بلکہ ماں بولی کی وجہ سے زبان کی محبت انسان کی رگوں میں خون کی طرح گردش کرتی ہے۔

بہرحال پنجاب میں رہنے والے پنجابی اہلکار کو پنجابی زبان بولنے اور موصوفہ کو پنجابی زدہ کرنے پر پنجابی افسران کی سرزنش کا پنجابی زبان میں ہی سامنا کرنا پڑ گیا، واقعے کے بعد پنجابی پُلسئے کو پنجاب میں رہنے والوں کے لیے پنجابی کے بجائے ہلکی پھلکی انگریزی سیکھنی پڑی۔

دوسری جنگ عظیم میں اتحادیوں نے محوری عظیم طاقت جاپان کو مار مار کر ادھ موا کر دیا، پھر اس ادھ موئے جاپان پر دو ایٹم بم گرا کر مکمل مردار کر دیا، جنگ کے بعد صرف چند دہائیوں میں جاپان نہ صرف دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا ہوگیا، بلکہ چھوٹے قد کے باوجود دنیا کی دوسری قوموں سے بلندوبالا نظر آنے لگا، تحقیق میں وجہ قرار پائی، ماں بولی میں تعلیم حاصل کرنا، جاپانی اپنے بچوں کو شروعاتی، ثانوی اور اعلیٰ درجے کی تعلیم جاپانی زبان میں ہی فراہم کرتے ہیں، ماں بولی ان کو نہ صرف اعتماد کی دولت بخشتی ہے، بلکہ کتاب میں لکھا ایک ایک لفظ اور اسکے معانی ٹھیک ٹھیک ان کے شعور سے گذر کر لاشعور تک میں جذب ہوجاتے ہیں۔

یہ نہیں کہ جاپانی صرف ایک زبان پر اکتفا کرتے ہیں، بلکہ اکثر سے زیادہ جاپانی تین یا تین سے زیادہ زبانیں سیکھتے ہیں، اور دنیا بھر سے "کمیونی کیٹ" کرتے ہیں، ماں بولی کہیں بھی انکی ترقی کے راستے کی رکاوٹ نہیں بنتی۔ بلکہ ماں بولی نے ہی جاپانی قوم کو دنیا بھر میں ممتازکردیا۔

اپنے اس ایشیائی خِطّے میں پہلا نجی اسکول قریب قریب پونے دو صدی پہلے بنایا گیا، لیکن تقسیم کے بعد بھی کئی دہائیوں تک اردو میں تدریسی عمل نے قابل قدر ڈاکٹر، جرنیل، صحافی، استاد، دانشور، شاعر، ادیب ہر دور میں معاشرے کو کثیر تعداد میں فراہم کئے۔

اِدھر سرکار کا سرکاری اسکولوں سے دھیان ہٹا، اُدھر پرائیوئٹ اسکول لنگوٹ کَس کر میدان عِلم کے راہبر قرار پائے۔ ماں بولی والے سرکاری اسکولوں سے تعلیمی فرنٹ سیٹ چھیننے والے پرائیوئٹ اسکولوں نے پچھلی دہائیوں میں کیا گُل کھلائے ہیں، جائزے کے لئے پورے کا پورا معاشرہ حاضر ہے۔

اور کیا پرائیوئٹ اسکولوں کی بھرمار پورے پاکستان کی ایک فیصد آبادی کو بھی کوئی "انٹرنیشنل زبان" سِکھا پائی، ایک یا دو فیصد پاکستانی ہی پوری طرح کوئی دوسری زبان پڑھ، لکھ، بول یا سمجھ سکتے ہیں، جب نتیجہ ایک یا دو فیصد ہے، تو نجی اسکولوں کا "طُرّم خانی" کا دعویٰ سو فیصد کیسے مان لیا جائے۔

زبان کی مِٹھاس کو زبان سے چکھنے کے بجائے نفرت سے دیکھنے والوں کے لئے یہ بات انتہائی حیرت انگیز ہوگی، کہ امریکہ کے عظیم شہر "نیو یارک" میں آٹھ سو سے زائد زبانیں بولی جاتی ہیں، اور پورا شہر کیا پوری اسٹیٹ میں کبھی بھی کسی بھی زبان کو ہلکا، کمزور یا نفرت انگیز نہیں سمجھا گیا، بلکہ ہر زبان کو ایک جیسی اہمیت، عزت اور احترام عطا کیا جاتا ہے، اسی عزت، احترام اور اہمیت کا ہی "آؤٹ پُٹ" ہے کہ دنیا جہاں سے آئے لوگ ایک امریکی معاشرہ بن کر دنیا جہان پر حکومت کررہے ہیں۔

ماں بولیوں کو احترام دے کر امریکہ دنیا بھر میں احترام کا حامل ہے، جبکہ غلام اور "ماں بولی بیزار معاشرے" ذہنی غلامی کے کنویں کے مینڈک بن کر کنویں کو ہی دنیا سمجھ بیٹھے ہیں۔

Check Also

Phoolon Aur Kaliyon Par Tashadud

By Javed Ayaz Khan