Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zafar Bashir Warraich
  4. Kya Shaistagi Ke Liye Bhi IMF Ki Zaroorat Hai?

Kya Shaistagi Ke Liye Bhi IMF Ki Zaroorat Hai?

کیا "شائستگی" کے لیے بھی آئی ایم ایف کی ضرورت ہے؟

جن دنوں ہمارے خان صاحب اور پی ڈی ایم کے درمیان کرسی کی کھینچم تانی ہو رہی تھی، ٹھیک انہیں دنوں ہمارے سابق آقا انگلستان میں بھی "مجھے بٹھاؤ، مجھے بٹھاؤ" کا کھیل چل رہا تھا۔ بلکہ اِن چند ہفتوں میں تو انہوں نے یہ کھیل دو بار کھیل لیا، لیکن نہ غُصّہ، نہ ہَنگامہ، نہ گالم گلوچ حتیٰ کہ پڑوس والوں کو بھی گھر تبدیلی کا علم نہ ہوا، بس پارلیمنٹ میں ایک تقریر، ووٹ گنتی کا آئینی عمل اور یوں ایک وزیراعظم "تھا" اور ایک وزیراعظم "بَن" گیا۔

ظاہراً ہم مانیں یا نہ مانیں، انگریز برصغیر سے تو چلا گیا ہے، لیکن ہمارے دلوں میں آج بھی زندہ پائندہ ہے۔ پرانی بات تو چھوڑیں یہ ابھی والی نسل بھی انگریز کے قاعدے قانون، اصول، نظم و نسق، طرز حکومت، طریقے سلیقے سے متاثر ہے، شہری ہو یا دیہاتی بندہ انگریز کے ان کارناموں کے علاوہ صفائی ستھرائی، شائستگی اور سیاسی نظام کے قصّے اپنی آل اولاد کو لوک کہانیوں اور مُحاوروں کی طرح سناتا ہے۔

ہم نے بہت ساری چیزوں میں موازنہ اور مثالیں تو انگلینڈ کی بیان کرنی ہوتی ہیں، لیکن جب شائستگی اور آئینی احترام کی بات ہو تو ہمارے اصولوں اور طریقوں کے مقابل انگلش اُصولوں کی ایسی کم تیسی۔ برصغیر کی سیاسی تاریخ میں الزام تراشی، گِرہ لگانا، ٹُھونک بجا کرنا یا مُخالف کی دَستار سے چھیڑ چھاڑ کرنا تو تقسیم سے قبل ہی ہماری سیاست کا حصّہ تھا، برصغیر کی تقسیم میں جس طرح ہم نے ہر چیز میں حصّہ وصول کیا، اسی طرح اپنی سیاست میں"لَٹھ مار" کلچر بھی بانٹ کر اسے اپنے سیاسی کلچر کا حصہ بنا لیا اور اس سے کماحقہ استفادہ بھی کرتے رہتے ہیں۔

جدید سیاسی تاریخ میں شیخ رشید احمد اس "عظیم ورثے" کے نمایاں عَلمبَردار ثابت ہوئے، شیخ صاحب کی خوبی یہ ہے کہ جس کیمپ میں ہوتے ہیں وہی حَق کہلاتا ہے، اور ان کا مخالف گروہ ہمیشہ بَاطلِی گروہ کہلایا۔ بعض اوقات شیخ صاحب کے جلدی جلدی کیمپ بدلنے سے حق و باطل اس طرح گڈمڈ ہوتے ہیں، کہ خود جناب شیخ بھی چکرا جاتے ہیں، اور ان کے چاہنے والے بھی حیرت سے انگلیاں دانتوں میں داب لیتے ہیں۔

شیخ صاحب طویل عرصے تک اس میدان کے واحد شہ سوار رہے، چونکہ شیخ صاحب صوبہ پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں، پنجابی اور اردو ذخیرہ الفاظ تو ان کے پاس پہلے ہی بہت تھا، پھر انگریزی سے ان کی چھیڑ چھاڑ سے انگریزی کا بھی اچھا بھلا ذخیرہ بھی ان کے ہاتھ لگ گیا، اسی لئے شیخ صاحب کی توپوں سے نکلنے والے ہر گولے کا رنگ جُدا جُدا ہوتا ہے۔ ان کی چھیڑ چھاڑ اور انگریزی دانی کے ان کے مخالفین بھی گواہ ہیں کہ برصغیر میں اگر اچھی انگریزی بولی ہے، تو صرف دو لوگوں نے ایک شیخ رشید احمد اور دوسری اداکارہ مِیرا۔

عمران خان کی سیاسی انٹری کو تو اب ڈھائی صدیاں ہو چکی ہیں، لیکن ایک دہائی قبل ان کی سیاست میں وہ مصالحے شامل نہیں تھے، جو آج کی سیاست میں ہاتھوں ہاتھ بکتے ہیں۔ ان کے مخالفین الزام لگاتے ہیں کہ خان صاحب کی سیاسی دیگ میں یہ مصالحے کسی پاشا صاحب نامی پرستار نے ڈالے تھے، وہ خان صاحب کے بڑے پرستار تھے، اور اس جذباتی پرستاری میں جملہ مصالحہ جات کی تعداد دُوگنی کر گئے۔

اس جذباتی پرستاری سے خان صاحب اور ان کی پارٹی دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر گئی۔ اب جب سیاسی بریانی یا انقلابی قورمے میں حد سے زیادہ مصالحے ہوں، تو زبان تو جلے گی۔ خان صاحب اپنے پسندیدہ مغربی کلچر کو تو چھوڑ، مشرقی تہذیبی شائستگی کو بھول بھال کر مخالفین پر چڑھ دوڑے۔

پہلے سیاسی مخالفین ایک دوسرے کی دَستار سے چھیڑ چھاڑ کیا کرتے تھے، خان صاحب نے سیدھا سیدھا دَستاریں ہی اُلٹا دیں۔ پہلے مخالفین اگر کسی کے پیٹ سے کپڑا اٹھاتے تھے تو خان صاحب نے پورے کپڑے ہی اتار کر چوک میں لٹکا ڈالے، غرض آرام سکون سے بیٹھ کر مسائل کا اِدراک کرنا، ان کا حل سوچنا اور اِدارہ جاتی اصلاحات کے ذریعے ان مسائل کو حل کرنا تو سب گیا بھاڑ میں، اصل مسائل ہیں کیا، وہ سب اس طوفان بدتمیزی میں ہَوا ہوئے۔

چلیں مان لیا، کہ موٹروے بنانا تھا، خزانے میں پیسے کم تھے، قرضہ یہ سوچ کر لے لیا، کہ اسی سڑک سے پیسے اکٹھے ہونگے، تو قرض بھی چکا دینگے، یہ بھی تسلیم کہ پانی کے بڑے ذخیرے بنانے ہوں تو روپوں کا ذخیرہ بھی بڑا ہونا چاہئیے، ایسے میں کسی ایشیائی یا ولایتی ترقیاتی بینک کا دروازہ کھٹکھٹا لیا جائے، تو پھر پہلے ذخیرہ، پھر ترسیل اور پھر آمدنی کا معاشی چکر خود بخود بینک کو قرض لوٹا نے میں مدد دیگا۔

اس بات میں بھی دورائے نہیں کہ نئی بندرگاہ بنانی ہو، کوئی نیا شہر بسانا ہو، تعلیمی یا طبّی میدان میں سرکار کوئی انقلابی اصلاحی پروگرام چاہتی ہو، یا کوئی ایسا بڑا کام جس سے اگلے آٹھ دس سال میں روپے کی واپسی کا سفر شروع ہو جائے، یا کم از کم کوئی بڑا معاشرتی بدلاؤ ہی ممکن ہو جائے تو ایسی صورت میں کسی عالمی بینک کی مِنت سَماجت کرنا پڑے، تو قوم کی خاطر قومی رہنماؤں کو ایسا کرنا ہی پڑتا ہے۔

تسلیم کہ دنیا میں رہنے، دنیا داری نبھانے کے لئے روپیہ، پیسہ انجن میں تیل کا کام کرتا ہے، مانا کہ ادھار اور قرض کا چکر بھی جب تک دنیا ہے گھومتا رہے گا، دنیا کے کاروبار میں روپے پیسے کی اہمیت مُسلّم ہے، لیکن میرے عظیم سیاستدانوں میرے ربّ نے بے شمار تحفے ایسے بھی تو عنایت کئے ہیں، جن کے استعمال کے لئے کسی "آنے، پائی" کی ضرورت نہیں، "شائستگی" بھی انہیں تحفوں میں سے ایک انمول تحفہ ہے۔

اب شائستگی کے لئے تو کسی ورلڈ بینک یا آئی ایم ایف کی ضرورت نہیں، مانا کہ منہ سے نکلنے والے الفاظ پر کوئی ٹیکس نہیں دینا پڑتا، لیکن لیڈروں کے منہ سے نکلے الفاظ کی قیمت چکانا پڑتی ہے، کبھی خود لیڈر کو، اور کبھی قوم کو۔

Check Also

Hum Mein Se Log

By Najam Wali Khan