Kya Islamabad Mein Waqai Islam, Abaad Hai?
کیا اسلام آباد میں واقعی اسلام ،آباد ہے؟

گاؤں سے آیا دیہاتی مہمان اخبار پڑھ سکتا تھا، یہ مہمان آج صبح ہی کسی سرکاری کام سے اسلام آباد آیا، کام نبٹایا، اور مجھے ملنے چلا آیا، میں نے اسے اسلام آباد گھمانے کے لیے بڑے مشکل سے تین دن رہنے کے لیے راضی کیا، مجھے ضروری کام کے لئے آفس جانا تھا، اسے اخبار کا شوق تھا، میں نے اسٹور سے پرانے اخبار نکالے، اس کے سامنے پڑے ٹیبل پر رکھے اور گاڑی لے کر گھر سے باہر نکل گیا۔
"میں آج را ت کی گاڑی سے گاؤں واپس چلا جاؤں گا"میرے گھر میں گُھستے ہی مہمان نے دو ٹوک الفاظ و انداز میں کہا، "کیوں چچا، ابھی تو تم نے میرے ساتھ اسلام آباد گھومنا ہے"، میں نے حیرت سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، "اوئے پُتر، میں نے اسلام آباد تمہارے دکھانے کے بغیر ہی دیکھ لیا ہے"، مہمان نے پرانے اخباروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جواب دیا۔
"اسلام آباد میں اس قدر گندے جرم ہوتے ہیں، میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا"، دیہاتی مہمان نے کہنا شروع کیا، "اوئے اسی اسلام آباد نامی شہر میں کچھ مہینے پہلے عثمان مرزا نامی ایک درندے نے اپنے درجن بھر ساتھیوں سمیت کسی کمزور جوڑے کو قابو کیا، کئی گھنٹے تک ان کے ساتھ بیہودہ مذاق کرتے رہے، حتیٰ کہ دونوں لڑکے لڑکی کو ننگا کرکے انکی فلمیں بناتے رہے، پھر وہی فلمیں انہیں دِکھا دِکھا کر بلیک میل کر کے ان سے لاکھوں روپے بٹورتے رہے، کیا یہ سب کے سب مسلمان تھے؟ کیا ان کا یہ عمل جائز تھا؟ کیا جوڑے سے لئے گئے پیسے ان کے لیے حلال تھے یا حرام، اوئے کیا اس خبر نے پوری دنیا میں پاکستانیوں کو کہیں منہ دکھانے کے قابل چھوڑا؟"
"لیکن جرائم تو دوسرے شہروں میں بھی ہوتے ہیں چاچا"۔ میں نے دفاعی انداز اختیار کرتے ہوئے کہا۔
"ہوتے ہیں دوسرے شہروں میں بھی جرائم، لیکن وہ روزی روٹی کی کمی کی وجہ سے ہوتے ہیں، ادھر تو زیادہ روٹیاں ہضم نہیں ہورہیں، اُدھر پیسہ نہ ہونے پر جرم، اور ادھر تمہارے اسلام آباد میں پیسہ ہی پیسہ ہونے پر جرم۔
"لیکن اُن مجرموں کا تعلق مڈل کلاس فیملی سے ہوگا، انہیں اسلام آباد کی "ہائی جنٹری" میں رہنے کی تمیز نہیں ہوگی"، میں نے مجبوراً مجرموں کا دِفاع کرنے کی کوشش کی۔
"ہاں میں نے کچھ مہینے پہلے کا اخبار بھی پڑھا ہے، اس شہر کی "ہائی جنٹری" کا دعوی دار تھا نا ظاہر جعفر اور نور مقدم نامی لڑکی، وہی "ہائی جنٹری" جس نے اپنے ساتھ رہنے والی لڑکی کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا تھا، اوئے، یہ "ہائی جنٹری" ہمارے گاؤں کے قصائی سے بھی زیادہ سخت دل ہے، جو بکری حلال کرتے ہوئے بھی سہم جاتا ہے، اور اس "ہائی جنٹری" سے کوئی نہیں پوچھ سکتا کہ کیا جوان لڑکیوں کو بغیر نکاح کسی کے ساتھ رات رات بھر محفلوں میں جانا، ناچ گانا کرنا، اور ٹائم پاس کرنا جائز ہے یا غلط، اوئے خبر میں لکھا ہے کہ لوگوں نے لڑکے کے ماں باپ کو فون بھی کیا تھا، لیکن انہوں نے جواب دیا یہ پہلے بھی ایسی حرکتیں کرتا رہتا ہے، حالانکہ پولیس کا خیال تھا کہ اگر ماں باپ بروقت فیصلہ کرتے تو لڑکی کی جان بچ سکتی تھی"۔
"ہوسکتا ہے وہ لڑکا زیادہ پڑھا لکھا نہ ہو، یا اس کے والد اس کی تربیت کو ٹائم نہ دے سکے ہوں"، میں نے ایک بار پھر دفاعی پوزیشن لی۔
"ہاں ہاں پتر تم تعلیم کی بات کرتے ہو، ابھی کچھ روز پہلے کی ایک خبر بھی میں نے پڑھی ہے، جس میں ایک بڑے پڑھے لکھے مشہور دانشور آدمی کے لڑکے نے اپنی بیوی کو قتل کر دیا، اس معصوم کا کیا قصور تھا، اس کا ماں باپ بھی سنا ہے باہر رہتا تھا، اوئے پتر جب ان کو پتہ چلا ہوگا کہ ان کی لڑکی کے سر پر ہتھوڑا یا کوئی اور چیز مار کر بھیجا نکال دیا ہے، تو ماں باپ کا بھیجا بھی مفلوج نہیں ہوگیا ہوگا۔
"لیکن اس دانشور نے پولیس کو تو خود اطلاع دی تھی"، میں نے دانشور کی حمایت میں آہستگی سے جواب دیا۔
"اوئے اگر وہ یہ اطلاع پولیس کو دینے سے کچھ دن پہلے لڑکی کے ماں باپ کو دیتا، تو شاید اس معصوم کی جان اور خود دانشور کی عزت بچ جاتی، اوئے سانپ نکل جائے تو بعد میں لکیر پر ڈنڈے مارنے کے بجائے اپنے سر پر مار لینے چاہئیے"۔
آخری جملہ مکمل کرتے ہی گاؤں سے آیا دیہاتی مہمان اٹھا، کمرے سے اپنا سستا سا بیگ لایا، اور باہر کی طرف چل دیا۔
میں صوفے سے اُٹھا اور اسے روکتے ہوئے کہا، "چاچا جی رات ہو گئی ہے، صبح چلے جانا"۔
دیہاتی نے باہر کا دروازہ کھولا، اپنا منہ میرے کان کے قریب لایا، اور آہستگی سے کہنے لگا "باؤ جی، اپنے اسلام آباد اور اسلام دونوں کی فکر کر لیں، دونوں خطرے میں ہیں"۔
اس نے دروازہ بند کیا اور میں صوفے پر ڈھیر ہو گیا۔

