Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zafar Bashir Warraich
  4. Khabardar, Mobile Ke Bhi Kaan Hain

Khabardar, Mobile Ke Bhi Kaan Hain

خبردار، موبائل کے بھی کان ہیں

کبھی کبھی اچانک دن کے کسی وقت یا رات کے کسی پہر اچانک سوشل میڈیا کے کسی دور دراز کونے سے کوئی ویڈیو نمودار ہوتی ہے، اور پھر گردش کرتی کرتی کسی نہ کسی کے ستارے گردش کروا دیتی ہے۔ ایسی تمام کالی پیلی ویڈیوز میں ظاہر ہے دو ہی فریق ہوتے ہیں، ایک نشانہ بننے والا اور دوسرا نشانے باز، لیکن سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ کیوں، کیسے، اور کون کر رہا ہے؟ نشانے بازوں کا ٹھکانہ ڈھونڈنے سے پہلے ذرا نشانہ بننے والوں پر ترسیانہ نگاہ ڈال لیں۔

کچھ سال پہلے ایک صبح اچانک سابق چیئرمین نیب کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر چلنے لگی، ویڈیو میں معزز چیئرمین کسی خاتون کو بوسہ لینے کا طریقہ سمجھا رہے تھے، ان کی اس "اِسکل" کی یہ ویڈیو خود ان کے اپنے دفتر میں بنائی گئی تھی، حیرت کہ معزز چیئرمین کو کانوں کان خبر نہ ہوئی، آ ج کے وزیر داخلہ اور اُس وقت کے اپوزیشن لیڈر رانا ثناءاللہ نے قومی اسمبلی کے فلور پر اس خفیہ ویڈیو بارے مزید انکشاف کیا کہ معزز چیئرمین کی ایک نہیں دو یا تین ویڈیوز موجود ہیں۔

انہوں نے انکشاف کے ساتھ حکومت پر الزام بھی لگایا کہ یہ ویڈیوز معزز چئیرمین کو دباؤ میں لانے کے لیے بنائی اور چلائی گئی ہیں۔ بہرحال رانا صاحب کے بیان میں کہاں تک سچائی تھی، ویڈیو ایک تھی یا زیادہ یہ تو کسی کو نہیں معلوم، ہاں اتنا ضرور ہوا کہ بعد از ویڈیو جناب چیئرمین پوری طرح متحرک رہے اور بعد از ویڈیو نشر اپوزیشن کا حشر نشر ہوتا رہا، اور وہ بھی مسلسل۔

اب اور سنئے، ابھی تبدیلی حکومت کو گئے چند دن ہوئے ہوں گے کہ اتحادی حکومت کی آڈیو لیک ہوگئی، وفاقی کابینہ کے اجلاس اور خود وزیراعظم شہباز شریف کی آڈیو کسی مشین نے لپیٹی اور آن کی آن میں پوری دنیا میں سنی اور دیکھی اور تبصرے بازی کے عمل سے گزار دی گئی۔ جناب وزیراعظم اور خفیہ ادارے دَنگ رہ گئے، تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے دی گئی، کمیٹی نے فوراً سَر کھپا کے کچھ اقدامات تجویز کر دیئے، اور اگلی کیبنٹ میٹنگ میں وزیروں کے موبائل بھی جمع کرنے پڑے۔

کالی ویڈیوز کے سائیڈ ایفیکٹ کا سوچنا ہی وبالِ جان ہے، پی ٹی آئی چئیرمین عمران خان بھی ایسی ویڈیوز کی بازگشت سن کے بہت برہم ہوئے، کچھ وہ پہلے ہی غصے میں تھے، اور کچھ کالی ویڈیوز کی اطلاعات نے ان کے غصے پر تیل کا کام کر دکھایا، اور دبنگ اعلان کر دیا، کہ میرے بارے ایسی تمام ویڈیوز جعلی اور جھوٹی ہیں، اس لیے اگر کبھی ایسی ویڈیوز آئیں تو "یوتھی" ہرگز ہرگز اعتبار نہ کریں، تاکہ غلامی سے آزادی کا سفر رواں دواں رہے۔

اس غصہ بھرے بیان میں البتہ مستقبل کی ایسی ویڈیوز کے فرانزک آڈٹ کا چیلنج خان صاحب جیسا لیڈر بھی نہ دے سکا، کہ آخر انسان خطا کا پتلا ہے۔ ان کالی پیلی ویڈیوز میں سب سے خطرناک جھٹکا اعظم سواتی کو لگا، جب کسی شرارتی بچّے نے ان کی خفیہ ویڈیو ان کے بچوں کو بھیج دیں، سواتی صاحب کی آل اولاد پر یہ ویڈیوز دیکھ کر کیا گزری ہوگی، والد اور اولاد کے رشتے کے تقدس میں کیا خلا پیدا ہوا ہوگا، یا وہ ایک دوسرے سے نظریں کیسے چار کریں گے؟ یہ سواتی جانیں یا خدا جانے۔

سواتی صاحب نے بَھری پریس کانفرنس میں بَھری آنکھوں سے ان ویڈیوز کو جعلی قرار دیا، لیکن صاف کپڑے پر لگے داغ کو دھونے میں وقت تو لگے گا، اور داغ جھوٹے ہی سہی لیکن انہیں دھوتے دھوتے شاید ان کا سیاسی کیرئیر بھی دُھل جائے۔ دراصل ان آڈیو، ویڈیوز کے "کئی جُہتی فوائد" حاصل کرنے کے لیے اس میں کچھ دوسرا مصالحہ بھی شامل کیا جاتا ہے، تاکہ چیخنے والے کی چِلاہٹ ذرا دور تک سنائی دے، اور اِس "چیل چباڑے" سے کئی دوسروں کو بھی سبق حاصل ہو۔

ابھی ابھی تازہ ترین "ہاٹ ویڈیو" ارشد شریف شہید کے پوسٹ مارٹم کے دوران بنائی گئی، جب کسی نے دانستہ یا غیر دانستہ کسی بھی جذبے یا منصوبے کے تحت دوران پوسٹ مارٹم ویڈیو بنائی، اور سوشل میڈیا کی کسی کونے پر چڑھا دی، اب یہ سوشل میڈیائی کمال ہے کہ "مطلب کی چیز" کو منٹوں میں اس طرح وائرل کرتا ہے، جیسے تیز آندھی مٹی کا طوفان برپا کرتی ہے، وہی مٹی جو چند منٹوں پہلے پیروں میں ہوتی ہے وہی سر میں خاک بن کر پَڑ رہی ہوتی ہے۔

کسی کے جذبات، احساسات، محبت یا روایات خاک آلود ہوتی ہیں تو ہوتی رہیں، کسی کو کیا، اپنی ویڈیو کو کون وائرل ہوتا نہیں دیکھنا چاہتا۔ چلیں مان لیا کہ ٹانگ کھینچ سیاست یا کپڑے اُتار مقابلہ بازی صرف پاک و ہند کے لوگوں کی میراث ہے، لیکن تازہ ترین سوشل میڈیائی جنگ بازی سے تو امریکہ چھوڑ یورپ جیسا مُہذب معاشرہ تک محفوظ نہیں، اب دنیا کے کونے کونے میں فرد، افراد اور ادارے اس نیک کام میں برابر شریک ہیں۔

اگلے روز اسکنڈے نیوین کنٹری فِن لینڈ کی وزیراعظم جو بڑے مزے سے دنیا کی سب سے کم عمر وزیراعظم کے اعزاز کے ساتھ وزارت عظمیٰ انجوائے کر رہی تھیں، کہ اچانک ان کی دو ویڈیوز کسی شرارتی نے سوشل میڈیا پر اپلوڈ کر دیں، ویڈیوز میں وزیراعظم صاحبہ کسی پرائیویٹ پارٹی میں ڈانس میں مشغول تھیں، ان کی مشغولیت کا فائدہ کسی موبائل کیمرے کے ساتھ مشغول شخص کا کام آسان کر گیا، اور بِلا کسی خرچے یا تیاری "وائرلی مواد" اس کے ہاتھ آ گیا۔

محترمہ وزیراعظم دہائی دیتی دکھائی دیں، کہ یہ ویڈیو میری کسی پرائیویٹ پارٹی میں بنائی گئی ہے، اور اس پارٹی میں ڈرنک بھی نہیں کیا گیا، ان کے مطابق انہیں معلوم تھا کہ پارٹی کی ویڈیوز بن رہی ہیں، لیکن انہیں ہر "ایرے غیرے" کے پاس اپنی ویڈیوز پہنچنے کا شدید دکھ تھا، انہوں نے اسے اُوچھی اور گھٹیا حرکت قرار دیا۔ جواں سال وزیراعظم نے بجا طور پر اس ویڈیو کے اثرات اگلے الیکشن پر پڑنے کا اعتراف کیا۔

ورلڈ وائڈ ویب جسے آسانی کے لئے www بھی کہا جاتا ہے، یہ عام لوگوں کو کسی بھی پیج یا ویب سائٹ تک رسائی دیتا ہے، دوسرے لفظوں میں یہ ایک ایسی دیوار ہے، جس میں ہزاروں، لاکھوں، کروڑوں دروازے یا کھڑکیاں موجود ہیں، اب دنیا میں ہر وقت، ہر کوئی، ہر دروازے یا کھڑکی سے دیکھ سکتا ہے، بلکہ اندر بھی گُھس سکتا ہے۔

اس رنگ رنگیلی دنیا تک جانے کے لیے صرف ایک انٹرنیٹ کنکشن آپ کی کسی بھی مشین کو اس قابل بنا دیتی ہے، کہ مکڑی کے اس جالے میں داخل ہو سکے، شاید اس کی پیدائش پر اس کا یہ نام "ویب" اسی لیے رکھا گیا ہو کہ اس میں داخلہ تو ممکن ہو، لیکن باہر نکلنا ناممکن۔ لیکن اس دنیا میں جا کر کوئی باہر نکلے بھی تو کیوں؟ اس کی پسند کی ہر چیز تو اس میں موجود ہے، اس دنیا میں مولانا طارق جمیل اور مائیکل جیکسن دونوں صرف ایک کِلک کے فاصلے پر موجود ہیں۔

اب ورلڈ وائڈ ویب کا ہی ایک حصہ "ڈارک ویب" کہلاتا ہے، جو ان نشانے بازوں کا اصل ٹھکانہ ہے، لیکن اس میں ہر ایرے غیرے کی رسائی ممکن نہیں، یہ خاص سافٹ وئیر سے کُھلتی ہے، یہ پابندی اس پر اس لیے رکھی گئی ہے، کہ یہاں آنے جانے والوں کی شناخت ظاہر نہ ہو سکے، گویا یہ خالص شُرفاء کا کھیل نہیں۔

دنیا بھر کی کروڑوں ویب سائٹس سے مفت میں معلومات، تصویریں اور نہ جانے کیا کیا میسر ہے، لیکن کالی ویب سے کالی پیلی معلومات، تصویریں اور ویڈیوز کے لئے منہ مانگی رقم دی جاتی ہے، یہاں لین دین کے لئے سِکّہ رائجُ الوَقت یعنی تَگڑی کَرنسیاں، سونا اور حتیٰ کہ ڈیجیٹل کرنسی بھی چلتی ہے، اسی لئے یہاں دنیا بھر کے شکاری داخل ہوتے ہیں اور من کی مراد پاتے ہیں۔ ملین ڈالر کی یہ کالی انڈسٹری بلین ڈالر انڈسٹری بننے کے سفر پر مسلسل رواں دواں ہے، اور شکاریوں کی تعداد میں بھی مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

اب اس مصیبت بھری ویڈیوز سے کوئی بچے بھی تو کیسے؟ چند ڈالر کا سستا موبائل بھی کیمرے جیسے مہلک ہتھیار سے لیس ہے۔ جس طرح کچھ لوگ کہتے ہیں کہ زمانہ بدل گیا، جبکہ کچھ زمانہ نہیں لوگ بدلنے کے نظرئیے پر بضد ہیں، اسی طرح شاید محاورے بھی رنگت تبدیل کرتے رہتے ہیں، پہلے سنتے تھے "آہستہ بولو، دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں"، اب محاورہ رنگ بدل کر کہتا ہے "انسانوں کی طرح سوئیں، موبائلوں کے بھی کان ہوتے ہیں"۔

Check Also

Youtube Automation, Be Rozgar Nojawano Ka Badalta Mustaqbil

By Syed Badar Saeed