Imran Khan Ka Aik Aur Aizaz
عمران خان کا ایک اور اعزاز

پاکستانی سیاست میں آپا دھاپی، مار کٹائی، طعنہ اور کوسنہ زنی تو چلیں گزشتہ دو تین دہائیوں سے چل ہی رہی تھی، چلیں مان لیا کہ خان نے اس کوئلے کے انجن میں زیادہ کوئلہ ڈال کر اسے تیز تر کر دیا ہو گا، لیکن اس چھینم جھپٹی اور پکڑ بھاگ ماحول میں جناب مولانا فضل الرحمان کی پریس کانفرنس نے گرما گرمی کے ماحول کو ٹھنڈے ٹھار اے سی ماحول میں تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔
کل اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں جناب مولانا نے عمرانی گولہ باری کے جواب میں برف کا گولہ مخالف سمت میں اچھال کر اپنی زندہ دلی اور روشن خیالی کا ثبوت دیا ہے، مولانا صاحب نے دوران پریس کانفرنس عمران خان کو شاہ رخ خان اور سلمان خان سے بڑا اداکار قرار دیتے ہوئے ان کی اداکاری کی زبردست تعریف کی۔
عمران خان کو اس با فضل ایوارڈ کی بات کرنے کے ساتھ ساتھ ہم فلم انڈسٹری کے اس دور کی یاد بھی تازہ کر لیتے ہیں، جب لاہور کے نگار خانوں میں واقعی فلمیں بنتی تھیں، شاہ نور اور ایور نیو سٹوڈیو میں اس وقت کے عظیم ترین اداکار اور اداکارائیں اٹھکیلیاں کرتے دکھائی دیتے تھے، رائل پارک میں عوام الناس اپنے محبوب فنکاروں کی جھلک دیکھ پاتے تھے۔
درپن، سنتوش کمار، وحید مراد، محمد علی، اگر مردانہ وجاہت کے تقاضے پورے کرتے تھے، تو زیبا، رانی، آسیہ، شبنم اور شمیم آرا جیسی فنکارائیں اداکاری میں فلم بینوں کے دل موہ لیتی تھیں، جہاں فلم میں زیادہ سنجیدیت سے فلم بین اداس ہو جاتا، وہاں منور ظریف، رنگیلا، ننھا اور لہری جیسے کلاسیکل فنکار اُداس فلم بین کا دل بہلا کر دوبارہ شاد کر دیتے، ان دنوں اپنے پسندیدہ فنکاروں کو دیکھنے کے لئے ملک بھر سے فلمی متوالے لاہور کا رخ کرتے اور اپنے اپنے فیورٹ اداکاروں کی شوٹنگ دیکھتے اور دل کی مراد پاتے۔
اکثر ایسا بھی ہوتا کہ شوٹنگ دیکھنے والے کئی گمنام متوالے کسی ڈائریکٹر کی نظر کا شکار ہوتے، اور وہ بھی گمنامی سے شہرت کا سفر کر جاتے۔ نگار ایوارڈ اس دور کا سب سے مقبول ترین فلمی ایوارڈ تھا، معروف فلمی صحافی جناب الیاس رشیدی صاحب اس کے روح رواں تھے، فنکار چاہے کتنا ہی مقبول کیوں نہ ہوتا، اس کی مقبولیت اور فنکارانہ مستند پَن اس وقت تک تسلیم نہ کیا جاتا، جب تک کہ وہ نگار ایوارڈ حاصل نہ کر لیتا، نگار ایوارڈ اس وقت فنکاری کی معراج کی سند سمجھا جاتا تھا۔
اس دور میں فلمی ہیرو، ہیروئنوں سے لے کر ہر فنکار اس ایوارڈ کے حصول کے لئے جان مارتا، اسی لئے کئی عظیم فنکاروں نے ایک سے زائد بار یہ ایوارڈ حاصل کیا۔
پھر اچانک ملک میں مرد مومن طلوع ہوئے، اور فنون لطیفہ کا یہ عظیم مرکز آہستہ آہستہ اُجڑے دیار کی داستان بن گیا، اور جس دیس میں نغموں کی گونج اور جلترنگ گونجتی تھی، وہاں گولیوں کی تڑتڑاہٹ نے جگہ لے لی، فلمی ہیروئن کی جگہ ایک دوسری "ہیروئن" عوام کے لئے تلاش کی گئی، تاکہ عوام تھوڑی دیر کے لئے نہیں بلکہ طویل عرصے تک اس کے مزے سے باہر نہ نکل سکیں، فارمولا کارگر رہا، نہ رہا بانس اور نہ اس کے بعد بجی بانسری۔
مولانا فضل الرحمان اَسّی کی دہائی کے کِسی درمیانی سال میں پاکستانی سیاست کے اُفق پر چمکے، مولانا کی خوش قسمتی کہ انہیں سیاسی ورثہ والد صاحب کی طرف سے بنا بنایا مل گیا، جب اس ورثے میں مولانا نے اپنی صلاحیتیں شامل کیں، تو ان کا ڈنکا پاکستان سے لے کر افغانستان تک بجنے لگا۔
حکومت چاہے زنانہ ہو یا مردانہ، ملٹری ڈکٹیٹر شپ ہو یا سویلین مارشل لاء، اپنے مطلب کی وزارتیں اور عنایتیں حاصل کرنا مولانا صاحب کے بائیں ہاتھ کا کھیل ثابت ہوا، مرحوم نواب زادہ نصراللہ خان کے بعد سیاسی مخالفین کو ایک گھاٹ پر جمع کرنا اور روٹھے ہوؤں کو دُھول تَھپکِی لگا کر دوبارہ اکٹھے کر دینا مولانا کی قدرتی ادا ہے، جس پر ان کے مخالفین بھی فدا ہیں۔
جس طرح بعض اوقات ایک ہی فنکار کئی نگار ایوارڈ لے اُڑتا تھا، اُسی طرح ہمارے قابل احترام مولانا بھی کئی خوبیوں کے مالک ہیں۔ اب ظاہر ہے مولانا نے عمران خان کو یوں ہی تُکے میں تو اتنا بڑا اعزاز نہیں بخشا ہو گا، اس اعزازی جملے کی ادائیگی سے قبل یقیناً شاہ رخ خان اور سلمان خان کی کئی ایک جاندار اداکاری والی فلمیں نظر سے گزری ہوں گی، تب جا کے تینوں خانوں کی اداکاری میں ممتازیت ڈھونڈ پائے ہونگے۔
نگار ایوارڈ کی نامزدگی کے لئے بھی سینئر فنکاروں، اداکاروں حتیٰ کہ اس دور کے مشہور فلمی اخبار نویسوں کو شامل کیا جاتا تھا، کیونکہ ایوارڈ یافتگان کا چناؤ ایک مشکل تحقیقی مرحلہ ہوتا تھا، مرد اداکاروں کو تو خیر چھوڑیں، زنانہ فنکاراؤں کا چناؤ زیادہ مشکل مرحلہ ہوتا تھا، نازک اندام ہیروئنوں کے ایک ایک انگ کو تولنا، آنکھوں، لبوں حتیٰ کہ بھنوؤں تک کے اتار چڑھاؤ کو پرکھنا، رقص و اندازِ بیان کی باریکیوں کی جانچ پڑتال کرنا بلاشبہ ایک مشکل مرحلہ ہوتا تھا، لیکن ہمارے یہ جیوری ممبران یہ تمام مشکل مراحل "خوشی خوشی" طے کر کے ایوارڈ کے حقداروں کا لفافہ انتظامیہ کے سپرد کرتے تھے۔
اب ظاہر ہے عمران خان کو فنکاری کی اس مسنَد پر بٹھانے کی بات مولانا نے ایسے ہی تو ہوا میں نہیں پھینک دی ہو گی، حقدارانِ ایوارڈ کو ڈھونڈنے والی کمیٹی کی طرح کے تمام مراحل طے کر کے ہی خان کو اس کا حقدار ٹھہرایا ہو گا، شاہ رخ اور سلمان کے فنکارانہ سرمائے کو یقیناً مولانا نے اپنی بصیرت افروز نگاہوں سے گزار کر ہی ایوارڈ کے حقدار کا لفافہ بنایا ہو گا، اس ایک لفافے میں بند نام کے لیے کتنے ہدایت کاروں کا کام تحقیقی نظر سے گزارا ہو گا، یہ مولانا جانیں یا خدا جانے۔
دنیا بھر کے فلمی ایوارڈز کی طرح نگار ایوارڈ بھی ایک دھاتی مجسمے کی شکل کا ہوتا تھا، یہ دھاتی مجسمہ ایک شاندار تقریب منعقد کر کے فنکار کو پیش کیا جاتا تھا، تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کباڑئے کو بیچا جا سکے۔ امید ہے مولانا بھی عمران خان کو مایوس نہیں کریں گے، اور بہت جلد ایک تقریب منعقد کر کے خان کو اس کی اس اضافی خوبی پر ایوارڈ پیش کریں گے، اگر دھاتی مجسمے پر کسی کو اعتراض ہو تو گلے میں گولڈ میڈل تو لٹکایا جا سکتا ہے، امید ہے خان صاحب بھی اِس پر معترض نہیں ہوں گے۔
چلیں سیاسی مخالفت اپنی جگہ، عمران خان مولانا کو جو چاہے کہتے رہیں، مولانا تو بڑے دل کے مالک ہیں، اگر انہوں نے عمران خان میں ایک سیاستدان سے بڑے اداکار کو "ڈِسکور" کر ہی لیا ہے، تو حقدار کو حق دینے میں آخر قباحت ہی کیا ہے، آخر ایک گولڈ میڈل پر خرچہ ہی کتنا آئے گا۔

