1.  Home
  2. Blog
  3. Zafar Bashir Warraich
  4. Doctor Khalid Maqbool Siddiqui Se Sar e Raah Mulaqat

Doctor Khalid Maqbool Siddiqui Se Sar e Raah Mulaqat

ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی سے سرِ راہے ملاقات

اپنے اصل موضُوع پر جانے سے پہلے ذرا مُلکی ایئرلائن انڈسٹری کا حال دیکھیں، 26 دسمبر کو اچانک گوجرانوالہ جانا پڑ گیا، پنجاب میں دُھند کے راج کی صُورتحال اور کچھ ایئرلائنوں میں زیادہ کرائے کے حصول کے مقابلے کی وجہ سے، فلائٹس اُڑنے اور اُترنے کے اوقات بھی گڑبڑا گئے، یا گڑ بڑ کر دیئے گئے، کچھ مسافر جو کچھ روز قبل ٹکٹ بُک کروا رکھتے ہیں، اُنہیں مناسب قیمت پر ٹکٹ کا حصول ممکن ہو جاتا ہے۔

لیکن اس بار "لالچی گڑبڑ" کو جس طرح موسم کی گڑبڑاہٹ کے ساتھ جوڑ کر "آمَد و رَوانگی" کے اوقات کو آگے پیچھے کیا گیا، اس سے پہلے بُک کئی مسافر اپنے شیڈول کو اِس "لالچی موسمی گڑبڑ" سے ہم آہنگ نہ کر پائے، اور ٹکٹ واپس کرنے پر مجبور ہو گئے، جنہیں جھٹ ائیرلائن کمپنیوں نے دُگنے تِگنے داموں مجبور مسافروں کی جیبوں میں ڈال دیا، اور اُسکے عیوض ان کی جیبیں صاف کر دیں۔ اِن دِنوں ٹکٹ کے دام سن کر یقین نہیں آیا، کہ کراچی لاہور کا ٹکٹ ہے، یا کراچی دبئی کا؟ بہرحال مسابقتی کمیشن کو اس پر ضرور غور کرنا چاہئے۔

اب آئیں آج کے اصل موضوع پر۔

بہرحال پہلے چیکنگ، پھر بورڈنگ کارڈ کا حصول، پھر دوبارہ چیکنگ اور پھر لاؤنج میں جا بیٹھے، ذرا دیر بعد کنوینر ایم کیو ایم ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کو دُور سے آتے دیکھا، ایک بار دیکھا، پھر غور سے دیکھا، برابر بیٹھے بھائی سے پوچھا، "دیکھنا، یہ خالد مقبول صدیقی ہیں"؟ بھائی نے اثبات میں سر ہلایا، اور ہماری صحافیانہ سرِشت گرم ہونے لگی۔ میرے سیٹ سے اٹھتے اٹھتے، اور سوال اکٹھے کرتے کرتے، ڈاکٹر صاحب ایک کیفے کی نشست سنبھال چکے تھے، میرے قریب جانے تک گرم گرم کافی سَرو کی جا رہی تھی، ڈاکٹر صاحب نے گرم گرم کافی کا سِپ لیا، میں نے سلام کیا، ڈاکٹر صاحب نے بڑی محبت سے جواب دیا۔

میں بھی کچھ لکھتا ہوں، اگر اجازت ہو تو کچھ سوال کئے جا سکتے ہیں"، میں نے ان کے سامنے والی کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا۔

ضرور، ضرور، ڈاکٹر صاحب نے مسکراہٹ اور احتیاط کے ساتھ مجھے دیکھتے ہوئے جواب دیا۔

ڈاکٹر صاحب ایم کیو ایم، فاروق ستار اور مصطفیٰ کمال کے اتحاد کی خبریں کئی دنوں سے کراچی کی فضاؤں میں گردش کر رہی ہیں، کیا آپ لوگ واقعی اتحاد کے قریب ہیں"؟ میں نے پہلا سوال کیا۔

"دیکھیں، اتحاد کے لئے تو تمام فریقین کے سیاسی قد کاٹھ کا "ایک جیسا" ہونا بہت ضروری ہے، اور سیاسی قد کاٹھ صرف ایم کیو ایم کے پاس ہے، پھر اتحاد کیسا"، ڈاکٹر صاحب نے پُر اعتماد جواب دیا۔

"لیکن سنا ہے بلدیاتی الیکشن میں آپ ایک دوسرے کو سپورٹ کرنے جا رہے ہیں؟"

"نہیں ایسی کوئی بات نہیں"، ڈاکٹر صاحب نے فیصلہ کُن جواب دیا۔

"کیا یہ اتحاد اگلے جنرل الیکشن تک ممکن ہے"؟ میں نے مزید کُریدا۔

"دیکھیں، ایم کیو ایم کا اپنا ووٹ بینک اپنی جگہ موجود ہے، اور پھر دوسروں کے آنے سے ہمیں کوئی، "الیکشن فائدہ" نظر نہیں آ رہا، لیکن اگر کوئی اتحاد چاہتا ہے، تو بغیر کسی شرط کے وہ واپس آ سکتا ہے، اور ویسے بھی ایم کیو ایم کی روایت رہی ہے، کہ اگر ایک شخص آج اسٹیج پر موجود ہے، تو ممکن ہے کل وہ سامنے عوام کے ساتھ بیٹھا ہو، اور اگر آج ایک شخص عوام میں بیٹھا ہو، تو ممکن ہے کہ کل وہ اسٹیج کی زینت بن چکا ہو۔ ڈاکٹر صاحب نے تفصیل سے اتحادی خبروں پر فیصلہ کُن جواب دیا۔

ان کے جواب میں وہی اعتماد نظر آیا، جو 2018 کے الیکشن سے قبل عمران خان کے لہجے میں نظر آیا تھا، فرق یہ تھا کہ عمران خان اُس اعتماد سے "اوور فلو" ہو گئے، جبکہ ڈاکٹر صاحب اِس اعتماد کو صبر کے سمندر میں اتار چکے ہیں۔

"اچھا یہ بتائیں، پارٹی میں"سُپر میسی" آپ کی ہے، یا عامر خان کی"؟ میں نے چُبھتا ہوا سوال کیا۔

"دیکھیں، ایم کیو ایم میں کوئی سُپر میسی نہیں"، تمام فیصلے اتفاق رائے سے ہوتے ہیں، میں اور عامر خان اکیلے کچھ نہیں کر سکتے"، ڈاکٹر صاحب نے کافی کا بڑا گھونٹ لے کر جواب دیا۔

"اے پی ایم ایس او" کا آپ کا دور، آج تک کا سنہرا دور کہلاتا ہے" میں نے پرانی یاد کو چھیڑا۔

"دیکھیں، شاید کچھ لوگ نہیں چاہتے، کہ نچلی سطح سے لیڈر شپ اوپر آئے اور ایم کیو ایم کا پیغام کراچی، حیدرآباد سے پورے ملک میں پھیلے، اسی لئے شاید اے پی ایم ایس او کُھل کر کام نہیں کر پا رہی"، ڈاکٹر صاحب نے کافی کے کپ کو دونوں ہاتھوں سے گُھماتے ہوئے جواب دیا۔

اس موقع پر اے پی ایم ایس او کے ایک اور سابق چیئرمین محترم فرحان شمس کا بھی تذکرہ ہوا، ڈاکٹر صاحب فرحان کا ذکر سن کر کچھ یاد آنے، اور کچھ یاد نہ آنے کا انداز لئے کافی کے ہَلکے ہَلکے گھونٹ لینے لگے۔

فرحان شمس کے ذکر سے میری اپنی بھی پرانی یاد تازہ ہوگئی، کئی سال بعد پچھلے دِنوں بیرون ملک سے کراچی آئے، ملے، اور اُسی پُرانی پرخلوص مسکراہٹ کے ساتھ گپ شپ کی۔

اس سے پہلے کوئی اور سوال کرتا، اچانک لاؤنج کے اسپیکر پر آواز گونجنے لگی "وہ مسافر حضرات جو ائیرسیال کی پرواز PK 142 پر لاہور کے لئے سفر کر رہے ہیں، ان سے گزارش ہے کہ گیٹ نمبر 16 سے جہاز پر تشریف لے جائیں"۔

میں نے مجبوراً سوال کے لئے جمع الفاظ کی ترتیب کو بدل کر اجازت کے جملوں میں تبدیل کیا، ڈاکٹر صاحب سے ایک گرم جوش مصافحہ کرتے ہوئے اجازت لی، اور گیٹ نمبر 16 کی طرف بڑھ گیا۔

ڈاکٹر صاحب نے کچھ دیر بعد شہرِ اِقتدار اسلام آباد کے لئے اُڑان بھرنا تھی، انہیں ابھی شہرِ اِقتدار تک کتنا انتظار کرنا ہے، یہ خدا جانے یا اسٹبلشمنٹ جانے۔

Check Also

Cyber Crime Ka Naya Idara Kya Naya Hoga?

By Raza Ali Khan