Bhoot Ustad, Jin Talib e Ilm
بھوت استاد، جن طالب علم

محکمہ تعلیم سندھ نے اُناسی بُھوت اُستادوں کا سراغ لگا کر انہیں نوکری سے برطرف کر دیا ہے، محکمہ تعلیم کے مطابق آٹھ ماہ سے غیر حاضر اُناسی ٹیچرز کا تعلق سرکاری اسکولوں سے تھا، جو آٹھ ماہ سے اسکولوں میں نہیں جا رہے تھے، لیکن ہر مہینے تنخواہ باقاعدگی سے وصول کر رہے تھے، یعنی آم کے آم گٹھلیوں کے دام۔
ان اُناسی بُھوت استادوں میں آٹھ ہائی اسکول ٹیچر، آٹھ جونئیر اسکول ٹیچر، دس پرائمری ٹیچر، چار سندھی ٹیچرز، کے علاوہ مختلف اسکولوں کا غیر تدریسی عملہ مثلا کلرک، آفس اسسٹنٹ اور پیون بھی شامل ہیں۔
نوکری سے ہاتھ دھونے والوں میں دو ہیڈ ماسٹر بھی شامل ہیں، وہ بھی آٹھ مہینے سے بغیر حاضری تنخواہ وصول کررہے تھے، پتہ نہیں ہیڈ ماسٹروں کی غیر موجودگی میں اسکول کیسے چل رہے تھے، گویا دو ریل گاڑیاں ایسی بھی تھیں، جو بغیر ڈرائیوروں کے رواں دواں تھیں، اب ایسی گاڑی جس کا کوئی ڈرائیور نہ ہو، اسکے مسافروں کا حال تو بُرا، مستقبل بھی کسی سے پوشیدہ نہیں، بغیر ڈرائیور گاڑی جلد کسی کو ٹکر مارکر خود بھی تباہ اور دوسرے کو بھی برباد کرتی ہے، اور اگر تباہی سے بچ بھی جائے تو منزل مقصود پر پہنچنے کے بجائے کسی جنگل، صحرا یا بیابان پر جاپہنچے گی، ہیڈ ماسٹروں کے بغیر چلنے والے اسکولوں کے بچّوں کی منزل بھی موہن جو دڑو ہوتی ہے۔
اس رپورٹ میں دلچسپ بات یہ ہے کہ برطرف کئے گئے تمام بُھوت استادوں کا تعلق سندھ کے سب سے پڑھے لکھے شہر کراچی سے ہے، جہاں سرکاری نوکری کی ایک سیٹ کے لیے سینکڑوں پڑھے لکھے دستیاب ہیں، لیکن لگتا ہے خود محکمہ تعلیم کے بھرتی خانے میں کچھ بُھوت ملازمین موجود ہیں، جو بھرتی کے وقت قابلیت سے زیادہ "کچھ اور" پر قناعت کرتے ہیں، نتیجتاً بُھوت افسر کا بھرتی کردہ استاد بھی بُھوت ہی نکلتا ہے۔
اب یہ تو ہوگئی سندھ کے پڑھے لکھے شہر کی داستان، سندھ کے اندرون شہروں سے کچھ عرصہ قبل بہت سے استاد (بُھوت نہیں سچ مچ کے جیتے جاگتے انسان) اچانک کراچی کی معروف سڑکوں پر جمع ہوگئے، پُوچھنے پر معلوم ہوا کہ ان سچ مچ کے استادوں کو کئی ماہ سے تنخواہ نہیں ملی، جس کی وجہ سے یہ مُعّلمانِ قوم اندرون سندھ کے دور دراز شہروں کا لمبا سفر کرکے کراچی آنے پر مجبور ہوئے، تاکہ شہرِ اقتدار کے حاکم اعلیٰ تک اپنی بِپتا پہنچائی جا سکے۔
ہمارے صحافی بھائی بھی کچھ شرارتی واقع ہوئے ہیں، اندرون سندھ سے آئے کئی سو معزز استادانِ گِرامی کے احتجاج کی کوریج کرتے کرتے پتہ نہیں صحافیوں کو کیا شرارت سوجھی، کہ ان اصلی استادوں کے انٹرویو لینے لگے اور وہ بھی براہ راست، اندرون سندھ سے آئے ایک قابل اور محنتی استاد جو ہائی اسکول کے محترم استاد تھے، سے صحافی لفظ "سیکنڈری" کے ہجّے پوچھ بیٹھا، استاد محترم پورا زور لگانے کے بعد بھی سیکنڈری کی اسپیلنگ نہ کرسکے۔
اب تو صاحب صحافی کو وہ شرارت سوجھی کہ خدا کی پناہ، سارے مجمع معلمی سے سیکنڈری ٹیچروں کو ڈھونڈ ڈھونڈ ان سے لفظ سیکنڈری کی اسپیلنگ پوچھنے لگا، بیچارے اعلیٰ تعلیم یافتہ ٹیچر اپنے اس عہدے کا انگلش ہجّے ہی نہ کرسکے، اب اندرون سندھ کا دُور دراز سفر کرکے بسوں میں دھکے کھاتے کھلاتے بندہ کچھ نہ کچھ تو زیر زبر کی غلطی کرہی جاتا ہے، میڈیا کو تو ویسے ہی شرارت سوجھتی رہتی ہے۔
ان تمام اساتذہ کرام میں سے صرف ایک نے بڑی کوشش کے بعد لفظ سیکنڈری کے بخّیے ادھیڑ کر آخر کار انگریزی ہجّے کرہی ڈالے، جب لفظ مکمل کیا تو "سیکنڈری" کے بجائے "میٹرنٹی" بن گیا، شرارتی صحافی نے ذرا زیادہ تحقیق کی تو پتہ چلا کہ استاد موصوف کی اہلیہ دائی کا کام کرتی ہیں، اور اندرون سندھ کے کسی چھوٹے شہر میں اچھا بھلا بڑا اسپتال چلا رہی ہیں، استاد موصوف بھی زیادہ تر وہیں خواتین کے دوائی دارو میں اہلیہ کا "ہاتھ بٹاتے" ہیں، اس لئے اپنا زیادہ وقت میٹرنٹی ہوم میں گزارنے کی وجہ "سیکنڈری" اور "میٹرنٹی" میں زیادہ فرق نہ کرپائے۔
سندھ کے سرکاری اسکولوں بارے اکثر سروے ہوتے رہتے ہیں، ہر سروے میں سرکاری اسکولوں کی کئی عمارتوں میں کسی وڈیرے کی اوطاق، کہیں جانوروں کے فارم اور کہیں گودام بنے نظر آتے ہیں، کچھ اسکولوں کی عمارتوں میں گدّھے بندھے ہوتے ہیں اور اُلّو اور چِمگادڑوں کا بسیرا ہوتا ہے۔
بھلا بھوت استادوں، گدّھا بندھ اصطبلوں اور اُلّو چِمگادڑوں سے سجی عمارتوں سے ڈاکٹر عبد القدیر، صلاح الدین ایوبی یا ذولفقار علی بھٹو تو نکلنے سے رہے۔
ہم بھی شاندار قوم ہیں، ہم کوّے کے انڈوں سے "شاہین" نکلنے کی دعائیں کرتے رہتے ہیں۔

