Alvida, Dr Amir Liaquat Hussain
الوداع، ڈاکٹر عامر لیاقت حسین
پتہ نہیں کیوں ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کی وفات کی خبر سن کر کئی پرانی کہانیاں اور واقعات اچانک ایک ساتھ دماغ میں گھومنا شروع ہوگئے، ان باتوں کا ڈاکٹر صاحب سے کوئی تعلق ہے یا نہیں مجھے خود نہیں معلوم۔
محمود بادشاہ کے کان میں اُس دور کے ٹرولرز نے ایک بات ڈالی کہ ایاز نے بہت سا مال اکٹھا کر رکھا ہے، اور روز دوپہر اپنے دروازے کا کمرہ اندر سے بند کر کے گنتا رہتا ہے، زیرک اور ایاز کے محب بادشاہ نے ان کا الزام ایک کان سے سنا اور دوسرے کان سے باہر نکال دیا، لیکن جاسوس مُصر تھے، کہ ہماری اطلاع سو فیصد پکی ہے، آخر ایک دن بادشاہ دوپہر کے وقت اس کمرے کی طرف ہوگیا، دروازے کو ہلایا، واقعی اندر سے مقفل تھا، بادشاہ اور ساتھ لوگوں کا اشتیاق بڑھ گیا، بادشاہ نے با آواز بلند کہا، "ایاز دروازہ کھولو"، اور ایاز نے فوری عمل کیا۔
دروازہ کھولا، دروازہ کھلتے ہی بادشاہ نے ایاز کو پھٹے پرانے لباس میں دیکھا، بادشاہ نے حیرت سے پوچھا، "میرے محبوب ایاز پر یہ لباس کیوں"، ایاز نے جواب دیا "میرے شاہی دربار سے منسلک ہونے سے پہلے میرا یہی لباس اور یہی حال ہوتا تھا، روز ایک بار اپنا پرانا لباس پہن کر آئینے میں اپنے آپ کو دیکھتا ہوں"، "اس کی وجہ جان سکتا ہوں پیارے"، بادشاہ نے محبت بھری نگاہوں اور محبت بھرے لہجے میں سوال کیا، "تاکہ مجھے اپنی اوقات ہمیشہ یاد رہے، تاکہ شاہی دربار کی عنایات مجھے اپنا ماضی نہ بھلا دیں"، ایاز نے اپنے پرانے لباس کی طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا۔
اب دوسرا واقعہ سنئیے، کئی سال پہلے کراچی سے لاہور جانے والی ٹرین لاہور جانے کے بجائے سبّی جا پہنچی، اس ٹرین میں سفر کرنے والے مسافروں نے آنکھوں دیکھا احوال بتایا کہ کراچی سے ٹرین میں سوار ہونے پر سارے مسافر خاص طور پر بچّے بہت خوش تھے، ٹرین تقریباً دو ڈھائی گھنٹے بعد حیدرآباد پہنچی، بڑا مزہ آرہا تھا، کوئی تاش کھیل رہا ہے، کوئی کھانا، کوئی گانا، کوئی گپ شپ اور کوئی کھڑکی سے باہر نظارے دیکھ رہا تھا، حیدر آباد سے سکھر کا فاصلہ بھی بڑے مزے میں طے ہوا، "تھوڑی دیر بعد گاڑی پنجاب میں داخل ہو جائے گی"۔
ایک بزرگ مسافر نے اپنا تجربہ باآواز بلند شئیر کیا، لیجئیے صاحب ہم انتظار کرنے لگے، لیکن ہمارا انتظار بڑھتا گیا، بڑھتا گیا، روزانہ کے مسافر حیرت سے کبھی گھڑی کی طرف، کبھی باہر کی طرف دیکھنے لگے کہ اچانک ٹرین ایک اسٹیشن پر جارکی، باہر گردن نکال کر دیکھا تو سبّی اسٹیشن تھا۔ تمام مسافر حیران، پریشان، گارڈ سے پوچھا تو پتہ چلا کہ گاڑی غلط ٹریک پر آگئی ہے، " کیوں" کئی آوازیں ایک ساتھ اٹھیں، "دراصل کانٹا بدلنے والے کی غلطی سے گاڑی غلط ٹریک پر چلی گئی"، گارڈ کا جواب تھا۔
اس وقت خبر پڑھ کر زندگی میں پہلی بار پتہ چلا کہ ہماری زندگی ایک کانٹا بدلنے پر منحصر ہے، غلط ٹریک پر چڑھنے سے کوئی بھی لاہور کے بجائے پشور جا پہنچتا ہے۔
ایک اور بات ذہن میں گڈمڈ ہوگئی، دنیا میں ہر انسان جب صبح اٹھتا ہے تو جسم کے اعضاء زبان کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہیں کہ، "مہاراج تم ٹھیک تو ہم سلامت، اگر آپ پھسلے تو ہمیں ٹوٹ پھوٹ سے کوئی نہیں بچا سکتا"۔
ایک دن میں نے درویش سے پوچھا" انسان کا سب سے بڑا دشمن کون ہے"، "انسان کی زبان" درویش نے بلا سوچے سمجھے جواب دیا، "اور انسان کا سب سے بڑا دوست کون ہے"، میں نے پھر سوال کیا، "انسان کی زبان"، درویش نے پھر بلا سوچے سمجھے جواب دے دیا۔
آگے پیچھے، الٹے سیدھے واقعات پتا نہیں کیوں ایک لڑی میں خود بحود پروئے جا رہے ہیں، چاکلیٹی ہیرو وحید مراد اور سدا بہار محمد علی سمیت اردو اور پنجابی کے مقبول اور مشہور ہیروز کے درمیان اچانک "ندیم" نمودار ہوئے، اور دیکھتے ہی دیکھتے اپنی الگ اور منفرد شناخت بنانے میں کامیاب ہوگئے، اور پھر سب کو پیچھے چھوڑتے ہوئے اپنے دور کے ہر کامیاب ہدایت کار اور ہر چنچل ہیروئن کے ساتھ کام کیا، ایک وقت ایسا آیا کہ خوبر و ندیم کے ساتھ کام کرنے کا لوگ خواب دیکھتے تھے، "وہ آیا اور چھا گیا"، واقعی زندگی میں کئی لوگ آتے ہیں اور چھا جاتے ہیں۔
اب آخری بات، سوشل میڈیا کے جنگلی شیر کا دروازہ کھولنے والوں کو خود نہیں پتہ تھا کہ اسکا شکار کون کون بنے گا، آج گدھے کو گھوڑا اور گھوڑے کو خچر کیسے ثابت کرنا ہے، اسکے لئے باقاعدہ کمپنیاں وجود میں آچکی ہیں، کسی کی زندگی کو کیسے جہنم بنانا ہے اور کیسے جنت سے جہنم کا حقدار ٹھرانا ہے یہ آج کی زندگی میں آرٹ کہلاتا ہے، تحقیق، دلیل، منطق، حیا، پردہ داری ایسے پرندے تو کب سے اس باغیچے سے اڑ چکے، بعض کو ہم نے زبردستی باغ سے دیس نکالا دے دیا اور بعض کو باقاعدہ ذبح کرکے بانٹ کے کھا گئے۔
ایک دوسرے کی ذاتی زندگی، کردار، گفتار، اہل و عیال میں کس وقت، کتنا اور کیوں داخل ہونا ہے، اب اس کی کوئی قید نہیں۔ کس کی باتوں کو جمع کرکے ایک نئی ویڈیو بنا لینا، اور اس پر اس کو سزا وار ٹھرا دینا، اب گناہ نہیں اپنے بیانئے کی ضرورت سمجھا جاتا ہے، سوشل میڈیا کا یہ گند عام لوگوں سے نکل کر اعلی ترین اداروں، ان کے پردھان منتریوں، سرکار حتیٰ کہ ریاست کو بھی اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ ان کا بندوبست کرنے والے اب جاگ جائیں، کہیں اگلا عامر لیاقت وہ خود نہ بن جائیں۔