Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zafar Bashir Warraich
  4. Agla Selab Kab Ayega?

Agla Selab Kab Ayega?

اگلا سیلاب کب آئے گا؟

کئی صدیوں قبل کے انگلینڈ و ہالینڈ کے مشترکہ سیلاب، آدھ صدی قبل کے گوئٹےمالا، بنگلہ دیش اور انڈین راجھستان کے سیلابی عذاب، صرف دو دہائی قبل کے اٹلی کے سیلاب اور چند سال پہلے کے شمالی ہندوستانی سیلابی ریلے کا مطالعہ کریں یا نہ کریں، ان سیلابی عذابوں سے کچھ سیکھیں یا نہ سیکھیں، لیکن چائنہ تو اپنا دوست ہے۔

دنیا کے دور دراز کے یا پرانے رئیس ملکوں کو تو چھوڑیں، اپنے اڑوس کے چند دہائیوں کے قبل کے غریب دوست کی بعد از سیلاب حکمت عملی کا ہی تجزیہ کر لیں، تو ہر پانچ، دس سال بعد سیلابی تباہی، حکومتی رونا پیٹنا، آفت زدوں کی پتھرائی آنکھوں اور در در کے بھیک منگے سے شاید ہمیشہ کے لئے تو نہیں، لیکن اگلے سو برس کے لئے بچا جا سکتا ہے۔

اپنے یار چائنہ کے شہر" یانگ ٹز " کا شدید سیلاب نہ صرف قریب قریب ڈھائی لاکھ لوگوں کو آناً فاناً بہا لے گیا، بلکہ قومی و ذاتی املاک بھی پلک جھپکتے میں کروڑوں سے ٹَکوں پر آ گئیں، بعد از سیلاب ان لاکھوں لاشوں میں سے کچھ ملیں اور زیادہ تر نہ ملیں، نہ انہیں ڈھونڈنے کی کوشش کی گئی، کہ اگر ڈھونڈ بھی لیں تو دفنائیں گے کہاں؟ قبرستان تک تو پُرانے مُردوں سمیت بہہ کر آگے کسی سمندر میں جا چکے تھے۔

اس شہر کی تباہی نے عام چائنی سے لے کر ٹاپ لیڈر شپ تک سب کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اسکے بعد سر جوڑ لئے گئے، اور اس شہر سمیت دوسرے شہروں سے سیلاب کو پَرے دھکیلنے کے لئے ایسی حکمت عملی بنائی گئی کہ خود سیلاب حیران ہو گیا کہ میں طاقتور ہوں یاں خدا کی بنائی گئی پانچ پانچ فٹ کی یہ مخلوق۔ چائنہ نے اس روز روز کے سیلابی عذاب سے چھٹکارہ پانے کے لئے طویل المدتی بندوبست کے لیے بھرپور اسٹڈی کی، ایشیائی ترقیاتی بینک کی معاونت سے اس اسٹڈی کو مکمل کر کے پہلے اسے اپنے یہاں لاگو کیا، پھر اسےکتابی شکل دیکر شائع بھی کر دیا، تاکہ ہم جیسوں کا بھی بھلا ہو۔

2022 کا جون سے شروع حالیہ سیلاب بھی پاکستان کے دو صوبوں سندھ، بلوچستان اور کشمیر کی پہاڑی پٹی پر واقع اپنے راستے میں آنے والی ہر تعمیر کو بنانے والوں سمیت ہی غرق بود کر گیا۔ سیلابی ریلا خود تو انسانوں اور املاک کو اپنے ساتھ لے کر بحرہ عرب میں اتر گیا، لیکن اپنے پیچھے تباہی کی ایک نہیں کئی داستانیں چھوڑ گیا، جِسے اب بچنے والے اپنی اولادوں کو لوک کہانیوں کی طرح سنایا کرینگے۔

اقوام متحدہ نے شروع شروع میں اسی سیلابی تباہی کو ہلکا لیا، اور دنیا بھر سے 16 کروڑ ڈالر امداد کی اپیل کر دی، لیکن بھلا ہو سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ انتونیو گردیس کا جو خود آ کر اس تباہی کا مشاہدہ کر کے گئے، انہوں نے جاتے ہی اس امداد کی اپیل کو پانچ گنا بڑھا کر 81 کروڑ 60 لاکھ ڈالر کر دیا، کہ تباہی دنیا کے اندازوں سے زیادہ ہو چکی ہے، انجلینا جولی بھی مصیبت زدوں کو ملکر کئی بار آہ زدہ ہوئیں۔ عالمی سطح پر اس تکلیف کو نمایاں کرنے پر ان دونوں شخصیات کا بڑا ہاتھ ہے، شکریہ جولی و انتونیو۔

یو این رپورٹ کے مطابق پاکستان کے 28 اٹھائیس اضلاع کے تقریباً 60 لاکھ افراد اس آفت سے بری طرح متاثر ہوئے، خود حکومت سندھ کی رپورٹ کے مطابق تقریباً 23 لاکھ خاندان بری طرح متاثر ہوئے ہیں، جن میں لاکھوں بچّے بھی شامل ہیں، ان بچوں میں وہ ڈیڑھ لاکھ بچے بھی شامل ہیں جو دنیا کا میلہ دیکھنے پہلی بار آئے ہیں، ان کو پلانے کے لئے ان کی ماؤں کی چھاتیوں میں دودھ نہیں ہے۔

بھلا جس ماں کو خود پیٹ بھر روٹی یا مُٹھی بھر چاول نصیب نہیں وہ اپنے بچے کو دودھ کہاں سے پلائے گی؟ ایسی صورت حال میں بعض سمجھ دار بچّے صرف چند دن گزار کے اس مصیبت خانے کا جائزہ لے کر خاموشی سے واپس ہو لئے۔ ان کی تعداد بھی سینکڑوں میں چلی جائیگی، حسرت ان غُنچوں پر۔

سیلابیوں کی توقعات پر اب تک نہ وفاق اور نہ صوبہ ہی پورا اتر سکا ہے، رابطہ اور مین سڑکیں، ریل گاڑی کا پہیہ، انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں کی خوراک، بنیادی طبی سہولیات تو شاید وقت کے ساتھ ساتھ پوری ہوں، امدادی سامان کی بروقت ترسیل اور اصل ضرورت مند تک رسائی جیسا بنیادی کام بھی ڈھنگ سے انجام نہیں دیا گیا، جس کا اظہار متاثرین نے دوروں پر آنے والے وزراء اور دوسرے صاحب بہادروں کا گھیراؤ کر کے کیا، سوشل میڈیا کبھی کبھی اچھا بھی لگتا ہے۔

سیلابی پانی تو آہستہ آہستہ اتر ہی رہا ہے، اور اتر ہی جائے گا، لیکن موسمیاتی تبدیلی کی رفتار میں اضافے سے کیا ممکن ہے، کہ اگلا سیلاب کب آ جائے، یہ سیلاب تو آپس کے جھگڑوں، کھینچہ تانی، مارچ نکال دھونس اور عدالتی آنکھ مچولی کے دوران گزر گیا، اگلے سیلاب کے لئے حکمت عملی کون بنائے گا؟

اگر کوئی خدا ترس بیوروکریٹ، کوئی انتھک صحافی، کوئی فارغ سیاستدان یا کوئی مسٹر یا مولانا اگلے سیلابی حملے سے بچاؤ کے لئے کچھ کاغذ کالے کرنا چاہے، تو کم از کم چائنہ کی سیلابی مصیبتوں کے بعد بنائی گئی اسٹڈی رپورٹ کو ہی پہلی سیڑھی بنالے، یہ اسٹڈی رپورٹ تو بچّے بچّے کے موبائل پر آسانی سے دستیاب ہے۔

Check Also

Pablo Picasso, Rangon Ka Jadugar

By Asif Masood