Afghan Ba Muqabla Do Super Powers
افغان بمقابلہ دو سپر پاورز
آخری امریکی فوجی کے افغانستان سے نکلنے پر، اسی رات میں نے درویش سے سوال کیا، کہ آخر کیا وجہ ہے، کہ دو سپر پاورز ہر طرح کی سہولت کے باوجود بے سروسامان افغانوں کو شکست نہیں دے سکی؟ درویش نے کتاب کا صفحہ موڑا، اور کتاب بند کر کے ران پر رکھی، اور مجھے میرے سوال کا جواب دینے لگے۔ یہ پچھلے مہینے کا واقعہ ہے، مغرب کی اذان ہو رہی تھی، نمازی حضرات تیزی سے مسجد کے بڑے دروازے سے اندر داخل ہو رہے تھے۔
بعض مسواک کو تیزی سے چلا رہے تھے، بعض قمیضوں کے بازو تہہ کر رہے تھے، اور بعض شلواروں کو ٹخنوں سے اوپر کرتے ہوئے اندر داخل ہو رہے تھے۔ میں بھی آہستہ آہستہ مسجد کے اندر داخل ہو رہا تھا، اچانک میری نظر ایک ساٹھ پینسٹھ سالہ بزرگ افغان پر پڑی، ہاتھ میں ایک چھوٹی بالٹی، جو آدھی پانی سے بھری اور اس میں شیشے کے چھوٹے چھوٹے گلاس، اور دوسرے ہاتھ میں تھرماس، جس میں قہوہ تھا۔
وہ تیزی سے چاروں طرف نظریں گھما کر ایسی جگہ تلاش کر رہا تھا، جہاں وہ اپنے کاروبار کی یہ "قیمتی چیزیں " رکھ سکے، اچانک مسجد کے گارڈ کی کرسی کے نیچے دونوں چیزیں رکھیں اور وضو خانے کی طرف بڑھ گیا، میں نے تجسّس سے پوچھا "بابا اتنی جلدی کیوں کر رہے ہو"؟"بیٹا کہیں جماعت نہ نکل جائے"۔
بزرگ کی بات سن کر مجھ پر شرم سے گھڑوں پانی پڑ گیا، میں سوچنے لگا نہ ان کا یہ وطن، یہاں پردیسی، نہ گھر، نہ مکان، نہ جائیداد، نہ کھانے کو برگر، بریانی، حلیم، نہاری، پیپسی اور کولا، ماضی تکلیف دہ، حال بے حال، اور مستقبل کا کچھ پتہ نہیں، حتیٰ کہ یہ افغانی جدھر جاتے ہیں، آوارہ کُتے تک ان پر بھونکتے ہیں، وطن سے بے وطن، اور دیس سے پردیس کے باوجود نماز سے وارفتگی کی کیفیت نے مجھے شرم سے پانی پانی کر دیا تھا۔
ہمیں صبح ناشتے، دوپہر کے کھانے، رات کے کھانے پر بے شمار چیزیں اور ان کے علاوہ دن بھر کھانے پینے کی فراوانی کے باوجود نماز کی وارفتگی کی توفیق نہیں ہوتی، میں شرم سے زمین میں گڑا جا رہا تھا۔ مجھے سمجھ آ گئی، کہ ایک سپر پاور روس سالوں نہیں بلکہ دہائیوں اور دوسری سپر پاور امریکہ بھی دہائیوں دنیا کے بہترین جنگی سازو سامان اور ہتھیاروں کے باوجود افغانوں کو نہیں ہرا سکا، بلکہ اس جنگ میں دونوں کی معیشت کا بیڑہ غرق ہو گیا۔ افغانوں کے پاس بہت اچھی فوج نہیں، سازوسامان نہیں، جدید ہتھیار نہیں، کھانے پینے کی ورائٹی نہیں لیکن افغان غلام نہیں۔
درویش نے ران سے دوبارہ کتاب اٹھائی، اندر مڑے صفحے سے کتاب کھولی اور دوبارہ پڑھنے سے پہلے چئیرمین ماؤ کا مشہور زمانہ جملہ "جنگ میں جدید ہتھیار اہم کردار ادا کرتے ہیں، لیکن فیصلہ کن کردار انسان ہی ہے"۔ سنایا اور دوبارہ کتاب پڑھنے لگے۔