1.  Home
  2. Blog
  3. Zafar Bashir Warraich
  4. Abbu Zindabad

Abbu Zindabad

ابّو زندہ باد

آج یونیورسٹی کی چھٹی تھی، پاپا بھی کام پر نہیں گئے تھے، میں جمائیاں لیتا ہوا ابّو کے پاس آیا، وہ اخبار پڑھ رہے تھے، "پاپا، آج بوریت ہو رہی ہے، کوئی بات سنائیں "، پاپا نے عینک ہٹائی، اور اخبار فولڈ کرکے ٹیبل پر رکھا، انہوں نے بات شروع کی۔

دیکھو بیٹا، انسانوں کے مجموعے کا نام معاشرہ ہے، ہر معاشرے میں معاشرتی برائیاں اور اچھائیاں موجود ہوتی ہیں۔ ہم نے معاشرے سے کیا، کیوں، کب اور کیسے حاصل کرنا ہے، ہمیں اسکی سمجھ بوجھ ضرور ہونی چاہیے۔

ابّو نے کہنا شروع کیا، سمندر کی سیر کے دوران ایک جگہ بہت سارے کیکڑے دیکھے، اچانک میں نے ایک کیکڑے سے سوال کیا "تم میں سے کون سب سے زیادہ زہریلا ہے"، کیکڑے نے میری طرف دیکھا، ہلکا سا مسکرایا اور کہنے لگا "تم جس کی دُم پر بھی ہاتھ لگاؤ گے، وہی ڈنگ مارے گا"۔

باغ میں صبح کی سیر کے دوران پھولوں کی کیاری کے پاس پہنچا، تو پھول ڈالیوں سے اس طرح جُھول رہے تھے، جیسے کوئی خوش دل محبوب کسی اداس ذہن کے ساتھ چلنے کی دعوت دے رہا ہو، اچانک میں نے ایک پھول سے پوچھا، "تم میں سب سے زیادہ کس کی خوشبو ہے"، پھول نے ہوا میں رقص کرتے ہوئے کہا، "تم جس کو سونگھو گے، تمھارا دماغ تک معطر کردے گا"۔ تمہیں زندگی کی حقیقی مہک سے روشناس کرادیگا"، میں پھول کا جواب سن کر بت بنا کھڑا رہا، اور پھول جواب دے کر دوبارہ ڈالی سے اٹھکیلیاں کرنے لگا۔

ایک بار کوئٹہ ایک دوست کے پاس جانا ہوا، وہ کوئلے کی کانوں کا ٹھیکیدار ہے، مجھے بھی کانیں دیکھنے کا شوق تھا، کوئلے کی کان کے دوران ایک بڑے سے کوئلے کے ٹکڑے سے میں نے سوال کیا "میں تمہارا مہمان ہوں، کیا میرے لئے تمہارے پاس کوئی تحفہ ہے"، کوئلے کا ٹکڑا ہلکا سا مسکرایا، اور کہنے لگا "میرے پاس تمہارے لئے صرف کالک ہی کالک ہے، مجھ سے ہاتھ ملاؤ تو ہاتھ کالے، گلے ملوں تو جسم کالا اور اگر میں زیادہ محبت دکھاتا دکھاتا جل اٹھوں، تو بھی میرے دھویں سے منہ تو کالا ہو ہی جائیگا"، میں گھبرا کر تیزی سے باہر نکل آیا، اور باہر خوبصورت فضا میں گہرے گہرے سانس لینے لگا۔

اچانک فضا کی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی "دوست میرے پاس تمہارے لئے صرف اور صرف خوشبو، مہک اور ٹھنڈک کے تحفے ہیں"۔ فضا کی سرگوشی سن کر مجھے شرم محسوس ہوئی کیونکہ کوئلے کی کان میں جانے سے پہلے فضا کے یہ تحائف میں نے زندگی بھر محسوس نہیں کئے تھے۔

پاپا نے بات ختم کرکے دوبارہ عینک کی طرف ہاتھ بڑھایا، ان کی باتوں سے میری تمام سستی ختم ہوچکی تھی، میں جو سبق اسکول، کالج اور یونیورسٹی سے نہیں سیکھ سکا تھا، وہ پاپا نے چند منٹوں میں زندگی بھر کے لئے مجھے پڑھا دیا، میں اٹھا، پاپا کے ہاتھ چومے، اور اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔

پاپا کی آنکھوں میں تیرتی نمی، ہونٹوں کی ہلکی مسکراہٹ نے ان کے پورے جسم کو طمانیت کی دولت عطا کردی تھی، پاپا نے ٹانگیں لمبی کیں اور پورے اطمینان سے صوفے کے ساتھ ٹیک لگا کر دوبارہ اخبار پڑھنے لگے۔

Check Also

Kya Pakistani Adalaten Apne Daira e Kar Se Tajawuz Karti Hain?

By Imran Amin