Wednesday, 25 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zafar Bashir Warraich
  4. Abba Ji

Abba Ji

اَبّا جی

کبوتر تھا ہی بہت خوبصورت، بہت دل چاہ رہا تھا کہ جھپٹا ماروں، اور پکڑ لوں، لیکن جان کِسے پیاری نہیں ہوتی، لاکھ پِچکار لیا، ہلکی پھلکی سیٹی بجائی، پیار سے ہاتھ نَچا نَچا کر بُلا لیا، لیکن وہ بھی کبوتر تھا، بِلّی نہیں کہ تھوڑی سی لِفٹ کرائی، اور پیروں میں لوٹنے لگی۔

لیکن انسان بھی آخر اشرف المخلوقات کہلایا تو کچھ خصوصیات کی وجہ سے، جَھٹ انسانی و حیوانی کمزوری یعنی "پیٹ" کا آخری ٹرمپ کاڑد پھینکا، بَالکونی میں مِٹی کے رکھے کُونڈے سے تھوڑے دانے اٹھائے، اور چھت پر بکھیرے، باجرے، مکئی اور گندم کے ملے جلے دانوں نے میری پیار بھری سیٹی، پِچکار اور محبت بھرے انداز سے زیادہ کام دکھایا، اور کبوتر صاحب فَٹ پیٹ کے عذاب کے ہاتھوں مجبور ہو کر پہلے مُنڈیر سے اُڑ کر چھت پر اور پھر ٹہلتا ٹہلتا دانہ دُنکا چُگنے میں مصروف ہوگیا۔

اسکی مصروفیت بڑھتے ہی میں نے تاک کر پُرانا تولیہ جو پھینکا، تو نشانہ ٹھیک کبوتر کے اوپر جا لگا، اور کبوتر بھاری تولیے کے نیچے بیچارہ بس پھڑ پھڑا کر رہ گیا، میرے دل کی مراد پوری ہوئی اور بھاگ کر تولیے سمیت کبوتر اٹھا کر بڑی احتیاط سے تولیہ کبوتر الگ الگ کر کے تولیہ پرے پھینک اور کبوتر سینے سے لگائے نیچے کمرے کی طرف بھاگا۔

"یہ گند خانہ پھر اٹھا لائے"، ماں جی نے کبوتر میرے ہاتھ میں دیکھ سختی سے کہا، دیکھ میں کہتی ہوں اپنے اَبّا کے آنے سے پہلے پہلے اسے اڑا دو، ماں نے مخلصانہ مشورہ دیا۔

میں ماں جی کے خوبصورت کبوتر کو "گند خانہ" اور "اڑا دو" جیسے مشورے پر بڑا ناراض ہوا، لیکن میں نے ماں کی کبوتر شناسی کی اہلیت بارے کم علمی کی وجہ سے دونوں باتیں نظر انداز کر دیں، اور کبوتر کو بڑے ٹوکرے کے نیچے بند کر دیا۔ تھوڑا دانہ اور چھوٹی کٹوری میں پانی ڈال کر میں نے کبوتر کے سامنے رکھا، بستہ اٹھایا اور ٹیوشن والی باجی کے ہاں پڑھنے چلا گیا۔ میری ٹیوشن واپسی پر اَبّا جی گھر آ چکے تھے، مجھے معلوم تھا کہ ماں نے کبوتر اور میرے بارے اَبّا کے کان بھرے ہونگے، لیکن خلافِ توقع اَبّا نے مجھے بالکل محسوس نہ ہونے دیا، بلکہ کبوتر کی پانی کی کٹوری میں میرے سامنے تھوڑا پانی اور ڈال دیا۔

"اگلے مہینے تمہارے امتحان ہیں بیٹا، ذرا خیال سے اپنا سبق یاد کرنا"، اَبّا جی نے رات چارپائی پر لیٹتے ہی مجھے کہا، ان کے لہجے میں مجھے ایک لمحے کے لئے شَفقت، اُمید، دُور اندیشی اور میرے اچھے مستقبل کا حوصلہ محسوس ہوا۔ لیکن میرا ذہن کبوتر میں اٹکا ہوا تھا، کل کوئی کبوتری لا کر اسکا جوڑا ملاؤنگا، پھر انڈے دینگے اور پھر بہت سارے کبوتر، اور یہ کبوتر تو ہے بھی بہت نسلی، اسکے بَچّے بھی مہنگے بِکیں گے، ان ہی خیالات میں نہ جانے کب میری آنکھ لگ گئی۔

صبح اُٹھتے ہی اچانک میرا ذہن سب سے پہلے کبوتر کی طرف گیا، ٹوکرے کی طرف دوڑا، تو دیکھا، ٹوکرے کی لوہے کی دو تین تاریں مُڑی ہوئی تھیں اور کبوتر غائب۔

"ماں، میرا کبوتر"، مجھے اپنے مستقبل کا شیش محل ٹوٹتا ہوا دکھائی دیا۔

"لگتا ہے رات کو کوئی بِلّی تاریں موڑ کر کبوتر اٹھا لے گئی"، اَبّا غسل خانے سے تولیہ ملتے ہوئے نکلے۔ "دیکھو ذرا کچھ پَر بھی بکھرے پڑے ہیں"، اَبّا نے ٹوکرا کِھسکاتے ہوئے کہا۔ مِیری آنکھوں میں آنسو آ گئے، "یار تم امتحان دے دو تمہیں بازار سے دوسرا کبوتر لادونگا"، والد نے مجھے اپنے ساتھ لگاتے ہوئے شفقت سے کہا۔ کچھ مہینوں بعد ایک روز اچانک اَبّا کو سینے میں درد ہوا، اور وہ ہمیشہ کے لئے ہمیں چھوڑ گئے۔

کبوتر بازی کا میرا پہلا اور آخری تجربہ بہت خوفناک ثابت ہوا، میں اپنی کتابوں میں گُھس گیا۔ ایک امتحان، دوسرا امتحان پھر کئی امتحان اور بلآخر میں ایم بی بی ایس ڈاکٹر بن گیا، پھر باہر جا کر سرجن کی ڈگری لے کر واپسی آیا تو ویلیو اور بڑھ گئی، جَھٹ ایک بڑی سرکاری نوکری مل گئی۔ بڑی جاب ملی تو بڑا گھر بھی مل گیا، پرانے گھر سے سامان کا آخری پھیرا اٹھانے گئے، تو ماں جی نے مزدور کو خاص طور پر بلا کر کہا "یہ ٹوکرا بھی رکھ لو"۔

"چھوڑیں ماں جی اس پرانے ٹوکرے کو، وہاں نیا لے لیں گے، ویسے بھی اب ٹوکرے کا رواج ختم ہوگیا ہے"، میں نے ماں جی کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔

"نہیں بیٹا، تمہاری پڑھائی اور اس ٹوکرے کا بہت ساتھ ہے"، ماں نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

"کیا مطلب"، میں نے ہنستے ہوئے ماں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

"بیٹا، یاد ہے تم نے بچپن میں ایک بار کبوتر پکڑ کر اس ٹوکرے میں بند کر دیا تھا"، ماں نے بات شروع کی، "ہاں جسے رات کو بِلّی لے گئی تھی"، میں نے یادداشت کو کھنگالتے ہوئے کہا، "وہ کبوتر بِلّی نہیں لے گئی تھی، بلکہ تمہارے سونے کے بعد تمہارے اَبّا نے وہ کبوتر نکالا، پہلے اسکے دو تین پَر نکال کر اسے اُڑا دیا، پھر بڑی مشکل سے ٹوکرے کی دو تین تاریں موڑ ڈالیں، اور مجھے کہنے لگے، اسے مت بتانا، یہ کبوتر اسکی وقتی خوشی ہے، ابھی بچہ ہے، ابھی اسے پتہ نہیں کہ اسکا اسکے مستقبل سے کوئی تعلق نہیں"۔

میں نے بڑی احتیاط سے پرانے ٹوکرے کو اٹھایا، اور اپنی مہنگی اور نئی گاڑی کی چھت پر رکھ لیا، میں نے بھیگی آنکھوں سے دیکھا تو ٹوکرے کی دو تین تاریں ابھی بھی مُڑی ہوئی تھیں۔

Check Also

Dunya Ke Mukhtalif Mumalik Ki Shahkaar Kahawaten

By Noor Hussain Afzal