Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Yusra Paul
  4. Shanakht e Buzdil

Shanakht e Buzdil

شناختِ بزدل

کالم لکھنے سے پہلے میں یہ واضح کرتی چلوں کہ میں کسی خاص صنف کی حوصلہ شکنی نہیں کر رہی بلکہ دنیا کے چھپے ہوئے حقائق سامنے پیش کر رہی ہوں۔ ہماری زندگیوں میں ہماری کچھ حقیقتیں ایسی ہوتی ہیں جن کو ہم جاننے سے ڈرتے ہیں لیکن کبھی نہ کبھی جاننا تو ہے۔ "شناختِ بزدل" یہ کالم خصوصی طور پر ان لوگوں پر مشتمل ہے جو صحیح وقت پر صحیح فیصلے لینے کی طاقت نہیں رکھتے، خواہ اب چاہے وہ مرد ہو یا عورت۔

شناختِ بزدل سے مراد بزدل شخصیت جو زندگی کے کچھ ایسے مسائل میں بزدلی دیکھا دیتے ہیں جہاں ان کا بزدلی دیکھانا بنتا نہیں۔ زندگی ایک امتحان ہے اور اس امتحان میں مختلف مراحل سامنے آتے ہیں جن سےڈر کر بھاگنا یا تو بیوقوفی کی علامت ہے یا پھر ایمان میں کمی ہے۔ ہمارے معاشرے میں زندگی کے کسی فیصلے میں اگر عورت بزدلی دیکھائے تو شاید یہ بات قابل قبول سمجھی جائے کیوں کہ ہمارا معاشرہ میل ڈومینٹ سوسائٹی کہلایا جاتا ہے جہاں ہر مقام پر مرد کو ہی پذیرائی ملتی ہے۔

تو یہاں عورت بزدلی سے کام لے تو اُس کو یہی سمجھا جاتا ہے کہ وہ کسی دباؤ میں آ کر بزدل ہونے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ لیکن اگر مرد بزدلی دیکھائے تو وہ بالکل ہی نہ مناسب اور عجیب بات سمجھی جاتی ہے۔ مرد کی کمزوری اور بزدلی کی وجہ سے کئی زندگیاں تباہ ہونے کا سبب بنتی ہیں لہٰذا مرد کا مضبوط ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ مشرقی ثقافت میں گھر کا سربراہ مرد ہی ہوتا ہے اس کی پزیرائی کے بنا کوئی فیصلہ نہیں کیا جاتا۔

لیکن جہاں مرد مضبوط نہ ہو تو وہاں عورت فیصلے لینا شروع کر دیتی ہے جس کی وجہ سے زندگی کے کئی معاملات بگڑ سکتے ہیں۔ ہمارے اس معاشرے میں یہ بات واضح ہے کہ عورت کچھ فیصلے لینے میں کبھی کبھار ہچکچاتی ہے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عورت میل ڈومینٹ سوسائٹی میں رہنا سیکھ جاتی۔ لیکن پھر بھی وہ کافی جگہوں میں کچھ فیصلے لینے سے محروم ہو جاتی ہے۔ لہٰذا میں یہاں اپنے تجربات کے ذریعے کچھ الجھنیں پیش کروں گی۔

چند ماہ قبل میرا ٹکراؤ ایک ایسی شخصیت سے ہوا جو کہ بیرون ملک میں مقیم تھے۔ بیرون ملک کی اگر میں مزید وضاحت کروں تو وہ موصوف آسٹریلیا میں مقیم ہیں، اچھے اخلاق کے مالک ہیں، اور اچھے گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں لیکن اپنی زندگی کے فیصلے خود لیے نہیں جاتے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان پیدا کیا اس کو عقل اور شعور سے نوازا لیکن اس کے باوجود اگر انسان بزدلی کا مظاہرہ کرے تو پھر کیا ہی بات ہے۔

اور خصوصاً اگر میل ڈومینٹ سوسائٹی میں مرد یہ کام کرے تو وہاں عورت یہ سمجھتی ہے کہ وہ محفوظ نہیں۔ زندگی کے کچھ صفحے انسان نے خود اپنی ذہانت سے بھی بھرنے ہوتے ہیں سارا بوجھ والدین اور اللہ تعالیٰ پر تو نہ ڈالے۔ اللہ تعالیٰ نے عقل اس لئے دی ہے کہ اس کا جائز استعمال کیا جائے، عقل استعمال کر کے غلط اور صحیح میں موازنہ کرے۔

ایک پوسٹ کے ذریعے میرا ان موصوف سے ملنا ہوا اور وہ پوسٹ بھی شادی کے متعلق تھی۔ اب محض یہ اتفاق تھا یا شاید اللہ کی طرف سے پھر کوئی اشارہ تھا جس کو مجھے سمجھنا تھا۔ کیوں کہ اللہ مختلف لوگوں کے ذریعے اپنے پیارے بندے کا صبر آزماتا ہے اور یہی کہانی تھی جس کا آغاز میں بتا چکی ہوں۔ وہ موصوف باتوں باتوں میں اپنے حال کے قصیدے کھول کر بیٹھ گئے کہنے لگے میں عجیب سی کشمکش کا شکار ہوں اور وہ کشمکش "شادی" ہے۔

اپنی پسند ظاہر نہیں کرسکتا لیکن پھر بھی کوئی لڑکی میسج کر کے پروپوز کرتی ہے تو میں اس کو سمجھاتا ہوں کہ میں گھر والوں کی مرضی کے بغیر نہیں چل سکتا وہ جو کہیں گے میں اس کو قبول کروں گا۔ اب مجھے لگتا ہے کہ یہ آسٹریلیا بھی اپنی امی جان کے اسرار کرنے پر گئے ورنہ ان کی شخصیت میں آسٹریلیا جانے والا کوئی کیڑا موجود نہیں تھا۔ ایک مسئلہ ہے، ایک نہیں بلکہ انسان کے مسائل ہیں جن میں سے ایک تو بہت نمایاں ہے کہ وہ خود کو بہت پسند کرتا ہے اور اس خوش فہمی کا شکار ہو جاتا ہے کہ اگلا بھی ویسے ہی اس کو پسند کرے تو ایسا نہیں ہوتا۔

اب ان بیرونی شخصیت کو یہ لگا ہر بار کی طرح ان کا کردار وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جائے گا اور وہ اپنی تعریفیں کرواتے رہیں گے لیکن ہر بار ایسا نہیں ہوتا۔ ماں باپ کا فرمانبردار ہونا کوئی گناہ یا غلط بات نہیں لیکن جب انسان خودمختار ہو جاتا ہے تو اس کو اپنی زندگی کے فیصلے خود لینے آنے چاہئیں۔ اگر لڑکی اپنی پسند کا اظہار کرے تو ہمارے معاشرے میں اس کو بدکرداری کے لیبل سے مخاطب کرنا شروع کر دیتے ہیں۔

لیکن کوئی یہ نہیں سوچتا کہ وہ جائز رشتے کو ترجیح دیتی ہے اور اپنی زندگی پاک رشتے میں گزرانا چاہتی ہے بجائے کہ وہ کسی غلط رشتے کا انتخاب کرے وہ جائز طریقے سے اپنے والدین کے آگے اور اپنی پسند کا اظہار کرتی ہے تاکہ وہ کسی گناہ کی طرف راغب نہ ہو۔ جب ایک لڑکی خود کے لیے ایک مشکل مرحلے کو چن کر اس پر سے گزرنا جانتی ہے تو پھر مرد کیوں نہیں؟ اب اُن موصوف نے کہا "لڑکی اچھی تھی میری پسند کے مطابق بھی تھی لیکن میں مجبور ہوں کچھ کر نہیں سکتا البتہ اس لڑکی نے اپنے والدین سے بات کی مگر میں اپنے والدین سے اس کے لیے بات نہ کر سکا۔ مجھے افسوس ہے اس بات کا کہ ایسی کتنی ہی لڑکیاں میری زندگی میں آئیں لیکن میں کوئی قدم نہیں لے سکا"۔

اس بات پر مجھے حیرت ہوئی کہ اگر یہی سب لڑکے کے ساتھ ہوتا تو اس نے لڑکی کی زندگی جہنم بنا دینی تھی لیکن اب بات یہاں لڑکی کی ہے اب وہ صرف چپ ہو کر اپنا راستہ بدل سکتی ہے اس کے علاوہ وہ کوئی غلط قدم اٹھانے کا نہ تو فیصلہ لے سکتی ہے اور نہ ہی سوچ سکتی ہے کیونکہ ایک شریف گھر کی لڑکی کبھی کوئی ناجائز حرکت نہیں کرے گی۔ تو لہٰذا بزدلی دیکھانا کوئی عقلمندی نہیں ہے اور نہ ہی یہ فرمانبردار میں شمار ہوتا ہے۔

Check Also

Something Lost, Something Gained

By Rauf Klasra