Tuesday, 16 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Yusra Paul
  4. Abbottabad Ka Dardnak Waqia

Abbottabad Ka Dardnak Waqia

ایبٹ آباد کا دردناک واقعہ‎

ایک زمانے میں ایبٹ آباد پاکستان کا وہ شہر مانا جاتا تھا جہاں کسی بھی قسم کی واردات کی آواز کبھی سنائی نہیں دیتی تھی۔ یہ وہ خوبصورت شہر تھا جہاں لوگ اکثر دور دراز کے علاقوں سے دیکھنے اور لطف اندوز ہونے آتے تھے۔ ایبٹ آباد کی خوبصورتی سردیوں میں برف سے ڈھکی چوٹیوں کی کشش اور سرد ہواں کی لہر لوگوں کے لیے جینے اور محبت کا احساس دلاتی ہے اور اللہ کی رحمت و قدرت پر غور کرنے کا موقع دیتی ہے۔ یہاں تک کہ، ایبٹ آباد کو تکنیکی اعتبار سے پاکستانی فوج کا تعلیمی مرکز گاہ سمجھا جاتا ہے۔

یہاں ماں باپ اپنے بچوں کو خود سے دور ایک ایسی زندگی جینے کے لیے بھیجھتے ہیں جہاں انہیں سکھایا جائے کہ اپنے وطن کا اور اس کے شہریوں کا تحفظ کیسے کیا جاتا ہے۔ مگر افسوس، آج اسی شہر میں ایک ایسے سانحے نے خون کی ندیاں بہا دیں اور اس کی خوبصورتی اور سکون کو خوف اور وحشت میں بدل دیا اور دنیا کے ہر رشتے کے لیے ایک سوال کھڑا کر دیا، جیسے والدین کی بے چینی اور فکر کو مزید کشمکش میں مبتلا کر دیا، کہ ان کی اولاد واپس کیسے آئی گی اور بچوں کے لیے ایک عجیب سا خوف پیدا کر دیا کہ ان کی ماں گھر سے باہر ان کو اعلٰی زندگی دینے کے لیے کچھ پیسے کمانے گئی تو واپس کیسے اور کب آئی گئی۔ یہ سوالات کئی سوچوں کا مرکز بن جاتے ہیں۔

سال دو ہزار پچیس میں کئی واقعات ہوئے، کئی لوگ اس دنیا سے رخصت ہوئے، بہت سی تخیلاتی تبدیلیاں ہوئیں، 27ویں آئینی ترمیم (27th Constitutional Amendment) ہوئی، بہت سے لوگ ناگہانی آفات کا شکار ہوئے اور روزانہ نئی ہیڈلائنز سامنے آتی رہیں۔ مگر ایبٹ آباد جو ہمیشہ ایسی خبروں سے دور سمجھا جاتا تھا، آج خود ایک دل دہلا دینے والی خبر کا حصہ بن گیا۔ چار دسمبر دو ہزار پچیس (4th December، 2025) کو ایبٹ آباد میں دن دھارے بے نظیر بھٹو شہید ڈی ایچ کیو ٹیچنگ ہسپتال ایبٹ آباد سے ایک فیمل ڈاکٹر کو اغوا کیا جاتا ہے اور اس کو ویران جگہ لے جا کر قتل کر دیا جاتا ہے۔ یہ انسانی درندگی کا وہ واحد ثبوت ہے جو ایک سہیلی نے اپنے لالچ کی خاطر اپنی ہی بچپن کی سہیلی کو موت کے حوالے کر دیا۔

اس واقعے نے پورے ایبٹ آباد کو ہی نہیں بلکہ ہر انسان کو خوف اور شک میں مبتلا کر دیا۔ دوستی ایک ایسا رشتہ ہے جو والدین اور بہن بھائی کے رشتے کے بعد سب سے زیادہ بھروسہ کیا جانے والا رشتہ ہوتا ہے۔ لیکن ڈاکٹر وردہ قتل کیس کے بعد ہر انسان ایک دوسرے سے جوڑے رشتے پر شک کی آنکھ سے دیکھ رہا ہے۔ ایبٹ آباد جیسے خوبصورت شہر کو اس واقعے نے ایسا اثر انداز کر دیا کہ اب ہر والدین اپنے بچوں کو دوستی نام پر یہی کہتے سنائی دئیں گے کہ "بیٹا زیادہ گہری دوستی مت رکھنا، دوستوں پر بھروسہ مت کرنا، دوستوں کے گھر اکیلے مت جانا"، یہ سب باتیں والدین پہلے بھی کہا کرتے تھے مگر اس افسوس ناک واقعے کے بعد وہ یہ سب درد اور خوف بھرے انداز میں کہانے لگے۔

اس کہانی کا دوسرا پہلو، ڈاکٹر وردہ نے آج سے دو سال قبل دو ہزار تیئس (2023) میں اپنے شوہر کے پاس دبئی جانے سے پہلے اپنی بچپن کی سہیلی ردہ نامی شخصیت کے پاس سڑسٹھ (67) تولہ سونا جو آج کل کی قیمت کے حساب سے (بتیس ملین ایک لکھ چھپن ہزار پاکستانی روپے ہے) بطور امانت رکھوا دیا اسی اثنا میں کہ مقتولہ کا سامان محفوظ رہے گا۔ مگر امانت میں خیانت کی بہت بڑی مثال قائم ہوگئی، یہ کیسی دوستی تھی جو سمجھ میں نہ آ سکی۔ جب مقتولہ نے اپنی سہیلی سے اپنا دی ہوئی امانت واپس مانگی تو کئی بار ردہ ٹال مٹول کرتی رہیں۔ یوں ہی بار بار مانگنے پر بل آخر ردہ نے ڈاکٹر وردہ کی جان پر ہاتھ ڈال دیا اور ان کی جان لے لی۔ سوال یہ اٹھتا ہے آخر اتنا سونا آیا کہاں سے؟ اور یہ سوال ابھی بھی جواب کا منتظر ہے۔ ایبٹ آباد میں ماضی میں چھوٹے موٹے حادثات واقعات ہوتے رہتے تھے جو کھبی ٹیلی ویژن کی ہڈلائنز کا حصہ نہیں بنے، لیکن ڈاکٹر وردہ قتل کیس تمام نیوز چینلز پر پہلی نیوز سٹوری کے طور پر ہر روز ایک نئے انکشافات سے دکھایا جا رہا ہے۔

ایبٹ آباد جو پرامن شہر سمجھا جاتا تھا، آج وہی شہر ایک دردناک واقعے اور خوف سے جوڑ گیا ہے۔ یہ خوبصورت شہر اس سانحے کے بعد خاموش سا ہوگیا ہے اور یہ خاموشی وہ آواز ہے جس میں کئی درد اور کئی سوال چھپے ہیں۔ ایبٹ آباد کی گلیاں وہی ہیں مگر ان میں خوف کا احساس نمایاں ہونے لگا ہے، ان گلیوں میں سکون کی ہواؤں میں اب درد بھی شامل ہو چکا ہے اور یہ شاید امن پر یقین کمزور ہونے کی نشاندہی ہے۔ ڈاکٹر وردہ قتل کیس نے صرف ایک زندگی نہیں چھینی بلکہ لفظ "دوستی" پر سے بھروسہ ختم کر دیا ہے۔

Check Also

Ummat e Muslima Ko Darpesh Fitne

By Muhammad Umar Shahzad