Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Yousaf Siddiqi
  4. Molana Mujhe Aap Se Shikayat Hai

Molana Mujhe Aap Se Shikayat Hai

مولانا مجھے آپ سے شکایت ہے

مولانا صاحب! مجھے آپ سے شکایت ہے۔ یہ شکایت کسی ذاتی رنجش یا مخالفت کی بنیاد پر نہیں بلکہ ایک دردِ دل ہے، ایک فریاد ہے جسے بیان کیے بغیر چین نہیں آ رہا۔ ہم ایسے دور میں سانس لے رہے ہیں جہاں ہماری نئی نسل تیزی سے دین سے دور ہو رہی ہے۔ سوشل میڈیا کے شور نے ان کے ذہنوں کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے، نیٹ فلیکس اور یوٹیوب کے پروگراموں نے ان کے تصورِ حیات کو بدل دیا ہے اور مغربی فلسفے نے انہیں یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ شاید مذہب محض پچھلی صدیوں کی روایت ہے جس کا آج کے انسان کی عملی زندگی سے کوئی تعلق نہیں۔ مولانا صاحب! سوال یہ ہے کہ جب یہ فکری طوفان اٹھ رہے ہیں تو آپ کہاں ہیں؟ آپ کی وہ آواز کہاں ہے جو ان نوجوانوں کو بھٹکنے سے بچا سکے؟

الحاد آج کے دور کا سب سے خطرناک وائرس بن چکا ہے۔ بظاہر یہ آزادی اور روشن خیالی کا دعویٰ کرتا ہے، لیکن حقیقت میں یہ انسان کو اندھیروں کی طرف دھکیل دیتا ہے۔ یہ انسان کو سب سے پہلے اخلاقی اقدار سے محروم کرتا ہے۔ جب خدا کا انکار کر دیا جائے تو پھر سچ اور جھوٹ، نیکی اور بدی کا کوئی معیار باقی نہیں رہتا۔ نوجوان یہ سوچنے لگتے ہیں کہ اگر زندگی کا کوئی مقصد نہیں، اگر موت کے بعد کچھ نہیں تو پھر کیوں کسی اصول کی پابندی کروں؟ کیوں میں برائی سے بچوں اور سچائی پر قائم رہوں؟ یہی سوچ الحاد کا سب سے بڑا دھوکہ ہے۔ قرآن نے صاف کہا: "وَمَنُ أَعُرَضَ عَن ذِكُرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا" (طہٰ: 124)۔ یعنی جو شخص اللہ کے ذکر سے منہ موڑتا ہے اس کی زندگی تنگ ہو جاتی ہے۔ آج مغرب میں الحاد کا سب سے بڑا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ لوگ ذہنی بیماریوں، بے سکونی، خاندانی نظام کے خاتمے اور خودکشی جیسے مسائل میں جکڑے جا رہے ہیں۔

مولانا صاحب! مغرب کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ وہاں خدا کو بامعنی زندگی سے نکال دیا گیا، نتیجہ یہ نکلا کہ خاندان ٹوٹ گیا۔ بچے والدین کے بغیر پروان چڑھ رہے ہیں، شادی کا ادارہ بکھر رہا ہے، تنہائی کا عذاب عام ہے۔ امریکہ اور یورپ میں نوجوان نسل antidepressant دواؤں پر چل رہی ہے۔ وہاں کی یونیورسٹیوں میں خودکشی کی شرح بڑھ رہی ہے۔ کیا یہ ترقی ہے؟ کیا یہ آزادی ہے؟ یہی وہ خواب ہے جو الحاد نئی نسل کے سامنے آزادی اور روشنی کے نام پر پیش کر رہا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ سب اندھیروں کا سفر ہے۔

آج کے نوجوانوں کے ذہنوں میں سوالات ہیں۔ وہ پوچھتے ہیں کہ خدا کا وجود کیوں ضروری ہے؟ اسلام ہی کیوں حق ہے؟ دین کی پابندیاں کیوں لازم ہیں؟ مگر افسوس کہ ہمارے معاشرے میں جب کوئی نوجوان ایسے سوالات کرتا ہے تو اکثر اسے جھڑک دیا جاتا ہے یا ڈرا دیا جاتا ہے۔ بجائے اس کے کہ ان سوالات کو دلیل اور حکمت سے حل کیا جائے، ان کی آواز کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ نوجوان پھر یوٹیوب اور سوشل میڈیا کے ان ملحدانہ چینلز کی طرف رجوع کرتا ہے جہاں اسے بظاہر دلیل کے ساتھ بات سننے کو ملتی ہے۔

مولانا صاحب! حقیقت یہ ہے کہ اسلام عقل و فطرت کا دین ہے۔ قرآن ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ہم کائنات پر غور کریں۔ "أَفِي اللَّهِ شَكٌّ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالُأَرُضِ" (ابراہیم: 10)۔ کیا آسمانوں اور زمین کے خالق کے بارے میں بھی کوئی شک ہے؟ یہ سوال عقل کو جھنجھوڑتا ہے۔ زمین کا اپنے مدار میں قائم رہنا، سورج کی روشنی کا ایک مقررہ پیمانے پر ہم تک پہنچنا، انسانی جسم کا نظام، دل کی دھڑکن، دماغ کی پیچیدگیاں، کیا یہ سب حادثے کا نتیجہ ہو سکتا ہے؟ سچ یہ ہے کہ ہر ذرے میں خدا کی گواہی موجود ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے والدین اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں"۔ (بخاری)۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان انسان کی فطرت میں شامل ہے، الحاد ایک مصنوعی رویہ ہے جو ماحول اور گمراہ نظریات کے زیر اثر جنم لیتا ہے۔

آج کے نوجوانوں کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ سائنس اور اسلام میں کوئی ٹکراؤ نہیں۔ بلکہ سائنس جتنا آگے بڑھتی ہے، اتنا ہی خدا کی حکمت اور اس کی قدرت آشکار ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر، جدید فلکیات ہمیں بتاتی ہے کہ کائنات ایک نقطے سے شروع ہوئی جسے "بگ بینگ" کہا جاتا ہے۔ قرآن نے چودہ سو سال پہلے فرمایا: "أَوَلَمُ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالُأَرُضَ كَانَتَا رَتُقًا فَفَتَقُنَاهُمَا" (الأنبیاء: 30)۔ کیا کافر نہیں دیکھتے کہ آسمان اور زمین ایک جمی ہوئی چیز تھے، پھر ہم نے انہیں پھاڑ دیا؟ کیا یہ قرآن اور سائنس کے ہم آہنگ ہونے کی واضح دلیل نہیں؟

مولانا صاحب! نوجوانوں کو یہ بھی بتانے کی ضرورت ہے کہ مغربی فلسفہ جس آزادی کا دعویٰ کرتا ہے، وہ دراصل بندگی کی زنجیر ہے۔ نطشے نے کہا "خدا مر گیا ہے"، لیکن آج اس کے ماننے والے خود اپنے مقصدِ حیات کو کھو بیٹھے ہیں۔ ڈارون نے کہا کہ انسان ایک حادثاتی ارتقا کا نتیجہ ہے، مگر یہ نظریہ انسان کو حیوان بنا دیتا ہے۔ ہیوم نے کہا کہ اخلاقیات انسانی خواہشات کی پیداوار ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ اگر اخلاقیات کا کوئی آفاقی معیار نہیں تو پھر ظلم و انصاف میں فرق کیسے کیا جائے؟ یہ سب نظریات وقتی طور پر دل کو بہلا دیتے ہیں، لیکن انسان کی روح کو سکون نہیں دیتے۔ اسلام کے پاس سکون ہے کیونکہ وہ خدا سے تعلق جوڑتا ہے اور زندگی کو مقصد بخشتا ہے۔

اب ذرا اپنے معاشرے پر بھی نظر ڈالیں۔ ہمارے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد سوشل میڈیا کی چمک دمک میں کھو گئی ہے۔ نیٹ فلیکس اور ڈراموں نے انہیں یہ سکھایا ہے کہ زندگی صرف مزے لینے کا نام ہے۔ انسٹاگرام اور ٹک ٹاک نے ان کے ذہنوں میں یہ بٹھا دیا ہے کہ انسان کی کامیابی صرف ظاہری خوبصورتی، لائکس اور فالورز میں ہے۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ وہ اندر سے خالی ہوتے جا رہے ہیں۔ ان کے پاس علم بھی ہے، ٹیکنالوجی بھی ہے، مگر دل سکون سے محروم ہے۔ یہ وہ خلا ہے جسے اسلام کی روشنی سے ہی پُر کیا جا سکتا ہے۔

مولانا صاحب! آپ سے میری شکایت یہی ہے کہ آپ نے اس خلا کو پُر کرنے کی ذمہ داری پوری نہیں کی۔ آپ نے نوجوانوں کے ساتھ وہ تعلق نہیں بنایا جو بنانا چاہیے تھا۔ آپ نے ان کے سوالات کو وہ اہمیت نہیں دی جس کی ضرورت تھی۔ آپ خطبوں میں، درسوں میں ضرور بات کرتے ہیں، مگر وہ صرف انہی کے لیے ہوتی ہے جو پہلے سے مسجد کے قریب ہیں۔ جو نوجوان مسجد سے دور ہیں، جن کے ہاتھ میں موبائل ہے، جو سوشل میڈیا کے نشے میں ہیں، ان تک آپ کی بات کیوں نہیں پہنچتی؟ اگر علما یوٹیوب، فیس بک اور انسٹاگرام پر مضبوط علمی اور مثبت انداز میں آئیں تو ہزاروں نوجوان متاثر ہو سکتے ہیں۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "تم ضرور نیکی کا حکم دیتے رہو اور برائی سے روکتے رہو، ورنہ قریب ہے کہ اللہ تم پر عذاب نازل کرے گا، پھر تم دعا کرو گے تو قبول نہ کی جائے گی"۔ (ترمذی)۔ یہ حدیث ہمیں جھنجھوڑتی ہے کہ اگر ہم نے اپنی ذمہ داری نہ نبھائی تو نہ صرف یہ نسل بلکہ آنے والی نسلیں بھی ہمارے ہاتھوں سے نکل جائیں گی۔

میں یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ اسلام ہی وہ دین ہے جو انسان کو نہ صرف خدا سے جوڑتا ہے بلکہ اسے اخلاق، عدل اور سکون بھی عطا کرتا ہے۔ اسلام کی تعلیمات انسان کو یہ سکھاتی ہیں کہ زندگی کا مقصد کیا ہے اور موت کے بعد کیا ہونے والا ہے۔ الحاد کے پاس ان سوالات کا کوئی جواب نہیں۔ الحاد صرف شک اور انکار دیتا ہے، جبکہ اسلام یقین، مقصد اور امید عطا کرتا ہے۔

مولانا صاحب! میری آپ سے فریاد ہے کہ آپ اس شکایت کو سنجیدگی سے سنیں۔ تاریخ کے اس موڑ پر آپ کا کردار بہت اہم ہے۔ اگر آپ اور دوسرے علما نے اپنی ذمہ داری پوری نہ کی، اگر آپ نے نوجوانوں تک نہیں پہنچا، اگر آپ نے ان کے سوالات کو جواب نہ دیا تو یہ نسل ہمارے ہاتھوں سے نکل جائے گی۔ پھر ہم تاریخ کے کٹہرے میں کھڑے ہوں گے اور سب سے بڑھ کر اللہ کے حضور جواب دہ ہوں گے۔ آئیے! ابھی سے اپنی راہ درست کریں، نئی نسل کو قریب کریں، ان سے محبت اور حکمت کے ساتھ مکالمہ کریں اور اسلام کی روشنی ان کے دلوں میں اتاریں۔ یہی وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے اور یہی ہماری نجات کا راستہ ہے۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam