Janoobi Asia Ki Badalti Sifarti Fiza
جنوبی ایشیا کی بدلتی سفارتی فضا
فیلڈ مارشل عاصم منیر کی قیادت میں پاکستان کی خارجہ پالیسی نے ایک نیا رخ اختیار کیا ہے جو نہ صرف خطے بلکہ عالمی سطح پر بھی محسوس کیا جا رہا ہے۔ جنوبی ایشیا کی پیچیدہ سفارتی بساط میں جہاں معمولی سی چال بھی بڑے نتائج پیدا کر سکتی ہے، وہاں ان کا اندازِ قیادت ایک خاموش مگر مؤثر حکمتِ عملی کی مثال ہے۔ گزشتہ برسوں میں پاکستان کے لیے جو چیلنجز سامنے آئے، وہ کسی بھی ملک کی سفارت کاری کا امتحان لے سکتے تھے۔ لیکن یہ حقیقت نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ حالیہ برسوں میں پاکستان نے اپنی پوزیشن بہتر بنانے میں نمایاں پیش رفت کی ہے۔ اس پیش رفت کے پیچھے محض اتفاق یا وقتی فیصلے نہیں بلکہ ایک طویل المدتی منصوبہ بندی اور مسلسل محنت ہے جس کا مرکز توازن، اعتماد سازی اور موقع شناسی پر مبنی حکمتِ عملی ہے۔
حالیہ مہینوں میں پاک-بھارت تعلقات ایک بار پھر کشیدہ ہوئے، سرحدی فائرنگ اور سخت بیانات کا تبادلہ دیکھنے میں آیا، لیکن پاکستان کی جانب سے ردِعمل غیر معمولی طور پر متوازن تھا۔ ماضی میں ایسے مواقع پر جلد بازی یا جذباتی بیانات دیکھنے کو ملتے رہے، مگر اس بار ایک پُرسکون مگر واضح پیغام دیا گیا کہ پاکستان امن چاہتا ہے لیکن اپنی خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ یہ طرزِ عمل اس حقیقت کا اظہار ہے کہ موجودہ قیادت خطے میں پائیدار امن کے قیام کے لیے ٹھنڈے دماغ اور حکمت سے کام لے رہی ہے، نہ کہ وقتی جوش یا دباؤ کے تحت فیصلے کر رہی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ جیسے غیر روایتی اور سخت گیر عالمی رہنما کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنا آسان کام نہیں تھا۔ یہ تعلقات محض رسمی ملاقاتوں یا بیانات کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک جامع حکمتِ عملی کا عکس تھے، جس میں پاکستان کے معاشی اور سکیورٹی مفادات کو یکساں اہمیت دی گئی۔ اس حکمتِ عملی نے پاکستان کو ایک ایسے شراکت دار کے طور پر پیش کیا جو محض امداد کا خواہاں نہیں بلکہ مشترکہ مفادات کی بنیاد پر تعلقات چاہتا ہے۔ یہی رویہ دیگر عالمی طاقتوں کے ساتھ تعلقات میں بھی دیکھا گیا، جس سے پاکستان کی ساکھ میں اضافہ ہوا۔
عاصم منیر کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ وہ فوری فائدے یا وقتی شہرت کے بجائے طویل المدتی نتائج کو مدِنظر رکھتے ہیں۔ ان کے سامنے خطے کے بڑے عوامل، بھارت اور افغانستان کی بدلتی ترجیحات، چین کی بڑھتی ہوئی موجودگی اور امریکہ کی نئی حکمتِ عملی، ہمیشہ ایک شطرنج کی بساط کی طرح موجود رہتے ہیں، جہاں ہر چال سوچ سمجھ کر چلنی پڑتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی قیادت میں پاکستان نے نہ صرف بڑے کھلاڑیوں کے ساتھ متوازن تعلقات قائم رکھے بلکہ اپنے لیے فیصلہ سازی کی جگہ بھی پیدا کی۔
اعتماد سازی ان کی حکمتِ عملی کا ایک اہم ستون ہے۔ یہ اعتماد صرف عالمی سطح پر نہیں بلکہ خطے کے اندر بھی پیدا ہوا۔ چین کے ساتھ سی پیک کے تحت تعاون، ایران کے ساتھ تجارتی بات چیت، وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ راہداری منصوبے اور خلیجی ممالک کے ساتھ سرمایہ کاری کے معاہدے، یہ سب پاکستان کو ایک ایسے ملک کے طور پر پیش کرتے ہیں جو نہ صرف اپنی ترقی کا خواہاں ہے بلکہ خطے کی مجموعی خوشحالی کے لیے بھی سنجیدہ ہے۔ اسی طرح انسانی بنیادوں پر تعاون اور مشترکہ دفاعی اقدامات نے پاکستان کے مثبت کردار کو مزید مستحکم کیا۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ عالمی سیاست میں پاکستان کا کردار طویل عرصے تک دفاعی نوعیت کا رہا، یعنی ہم اکثر ردِعمل دینے والے کھلاڑی کے طور پر پہچانے جاتے رہے۔ لیکن حالیہ برسوں میں اس طرزِ عمل میں ایک واضح تبدیلی آئی ہے۔ اب پاکستان محض دوسروں کی پالیسیوں کا جواب دینے والا ملک نہیں بلکہ اپنی پالیسی بنانے والا اور اس پر عمل درآمد کرنے والا فعال کھلاڑی بن چکا ہے۔ یہی تبدیلی پاکستان کو عالمی سطح پر ایک سنجیدہ فیصلہ ساز کے طور پر پیش کر رہی ہے۔
جنوبی ایشیا کی سفارتی حرکیات کو سمجھنا آسان نہیں۔ یہ خطہ تاریخی تنازعات، معاشی تفاوت اور جغرافیائی کشیدگیوں سے بھرا ہوا ہے۔ لیکن اسی خطے میں ترقی، تعاون اور امن کے مواقع بھی پوشیدہ ہیں۔ عاصم منیر کی قیادت میں پاکستان نے انہی مواقع کو تلاش کرنے اور بروئے کار لانے پر توجہ دی ہے۔ مثلاً افغان امن عمل میں پاکستان کا کردار، جو کبھی عالمی سطح پر شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، اب اسے ایک مثبت ثالث کے طور پر تسلیم کیا جا رہا ہے۔ اس سے نہ صرف پاکستان کی ساکھ بہتر ہوئی بلکہ خطے میں امن کے امکانات بھی بڑھ گئے۔
اس سارے منظرنامے میں ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ پاکستان نے اپنی دفاعی قوت کو صرف عسکری دائرے تک محدود نہیں رکھا بلکہ اسے سفارت کاری کے ساتھ جوڑ دیا۔ یہ ایک نیا اور مؤثر امتزاج ہے جس نے پاکستان کو نہ صرف اپنی سرحدوں کا محافظ بنایا بلکہ اپنے معاشی اور سفارتی مفادات کا بھی نگران بنا دیا۔ یہ سوچ کہ طاقت کا استعمال آخری آپشن ہونا چاہیے اور اصل کامیابی دشمن کو دوست میں بدلنے میں ہے، پاکستان کی موجودہ حکمتِ عملی کا بنیادی فلسفہ ہے۔
اگر ہم مجموعی طور پر دیکھیں تو عاصم منیر نے نہ صرف سفارتی محاذ پر کامیابی حاصل کی بلکہ پاکستان کے لیے ایک ایسا فریم ورک تشکیل دیا جو آنے والے برسوں میں خارجہ پالیسی کی بنیاد فراہم کرے گا۔ یہ فریم ورک موقع شناسی، اعتماد سازی اور متوازن تعلقات پر مبنی ہے۔ ان کی حکمتِ عملی نے یہ واضح کر دیا ہے کہ پاکستان اب عالمی سیاست میں محض ایک تماشائی نہیں بلکہ ایک فعال اور فیصلہ ساز فریق ہے۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ موجودہ قیادت کی پالیسی نے پاکستان کے لیے امکانات کے دروازے کھول دیے ہیں۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ تسلسل برقرار رہے اور ہر آنے والا قدم اسی سوچ اور منصوبہ بندی کے ساتھ اٹھایا جائے۔ پاکستان کو اپنی اس نئی پہچان کو مستحکم کرنے کے لیے داخلی استحکام، معاشی ترقی اور عوامی یکجہتی پر بھی توجہ دینا ہوگی۔ کیونکہ عالمی سیاست میں مضبوط خارجہ پالیسی کی بنیاد ہمیشہ مضبوط داخلی ڈھانچے پر ہوتی ہے۔
یوں یہ دور پاکستانی تاریخ میں ایک ایسے موڑ کے طور پر یاد رکھا جائے گا جہاں ایک سنجیدہ، خاموش مگر گہری حکمتِ عملی نے نہ صرف پاکستان کی سفارتی بساط کو مضبوط کیا بلکہ اسے عالمی سیاست میں ایک فعال اور باوقار کردار بھی دیا۔ یہ کردار برقرار رکھنا آنے والے رہنماؤں کے لیے ایک چیلنج بھی ہے اور ایک موقع بھی۔ اگر اس حکمتِ عملی کو مزید نکھارا جائے تو پاکستان نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ عالمی سیاست میں بھی اپنی جگہ مزید مستحکم کر سکتا ہے۔

