Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Yasir Wazir Niazi
  4. Imran Khan Ki Chancellorship

Imran Khan Ki Chancellorship

عمران خان کی چانسلر شپ

جب سے عمران خان سابق وزیر اعظم پاکستان نے آکسفورڈ یونیورسٹی میں چانسلر کا الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے تو حسب عادت قوم تین حصوں میں تقسیم نظر آتی ہے۔ ایک گروہ وہ ہے جو عمران خان کی چاہت میں مبتلا ہے اور بہت خوشیاں منا رہا ہے، ایک گروہ وہ ہے جو اس بات پر نا صرف نالاں ہے بلکہ خدا جانے کس بات کی وجہ سے وہ انتہائی کرب میں بھی مبتلا ہے اور تیسرا گروہ وہ ہے جو یا تو اس لیئے خاموش ہے کہ وہ الجھنا نہیں چاہتا یا پھر وہ اتنا علم ہی نہیں رکھتا یا پھر وہ بس حسب عادت دونوں سائیڈز کی تنقید و تعریف پر وقت گزاری کرنا چاہتا ہے یا چند ایک ایسے ہیں جن کو ان چیزوں سے سروکار نہیں۔

اگرچہ مجھے اس بات پر حیرت تو نہیں کہ ایسا کیوں ہے لیکن افسوس اس بات پر ضرور ہے کہ ملک میں ایک طبقہ ایسا بھی موجود ہے جو اپنے ہی ملک کے سابق وزیر اعظم اور کرکٹ جس سے وہ جنون کی حد تک پیار کرتے ہیں اسکے ورلڈ کپ ونر کے آکسفورڈ یونیورسٹی کے الیکشن لڑنے پر نالاں کیوں ہیں؟ بحیثیئت معاشرہ ہماری سوچ کی عکاسی کے لیئے بھی یہ اہم ہے کیونکہ آکسفورڈ یونیورسٹی نا صرف ایک معتبر اور پرانا ادارہ ہے بلکہ ریسرچ کی آماجگاہ بھی ہے جس کی چانسلرشپ کسی پاکستانی کے لیئے نا صرف اعزاز کی بات ہوگی بلکہ اس سے پاکستانی طالب علموں کے لیئے بہت سی آسانیوں اور مواقع ملیں گے جیسا کہ انہی صاحب یعنی عمران خان نے بریڈفورڈ یونیورسٹی کی چانسلرشپ جیت کر ثابت کیا ہوا ہے۔

یہ دوسرا طبقہ جس پر پہلا طبقہ کھل کر تنقید کر رہا ہے کہ ان میں شعور کی کمی ہے اور یہ عمران خان کی کامیابیوں کو ہضم نہیں کر سکتے وغیرہ وغیرہ اپنے نالاں ہونے کے لیئے بہت سی باتوں کو بنیاد بنا رہے ہیں اور مختلف حربے استعمال کر رہے جیسا کہ میرے ہی ضلع کے ایک مخصوص سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے میڈیا ایکٹیویسٹ سمیت کئی لوگوں کو میں خود جانتا ہوں جن لوگوں کے باقاعدہ سوشل میڈیا پر کمپین چلائی کہ آکسفورڈ یونیورسٹی کے میل ایڈریس پر آپ لوگ عمران خان کے خلاف میلز کریں اور ایک کاپی پیسٹ پوسٹ بھی مختلف گروپس میں گردش کرتی رہی کہ ایک پاکستانی اس یونیورسٹی کا چانسلر نا بن پائے اس کے لیئے کیا کیا الزامات لگانے ہیں اگرچہ وہ سچ ہیں یا جھوٹ یہ الگ مدعا ہے فی الحال عمران خان انڈر ٹرائل ہیں اور یہ ہمارا موضوع بھی نہیں ہے۔

ان لوگوں نے جن مختلف باتوں کو بنیاد بنایا ہوا ہے ان میں سب سے اہم حصہ انہوں نے صحافت کی دنیا میں انٹرنیشنل سطح پر معروف ایک ویب سائیٹ دی گارڈین پر لکھے جانے والے کیتھرین بینیٹ کا بلاگ ہے جس میں اس نے نا صرف عمران خان پر مختلف الزامات عائد کیئے ہیں بلکہ اسی بلاگ میں آکسفورڈ یونیورسٹی کی چانسلر شپ کے الیکشن کے طریقہ کار پر بھی تنقید کی ہے خاص طور پر اس بات کو بنیاد بنائی گئی کہ عورتیں کیوں اس سیٹ پر نظر نہیں آتیں؟ مگر یہ واضح ہے کہ اصل مدعا ایک پاکستانی سابق وزیر اعظم پر الزامات اور انکی جگ ہسائی کرنا ہی نظر آتا ہے۔

اس عورت کی رائے کا احترام اور انکی عزت اپنی جگہ لیکن بحیثیئت پاکستانی انکے الزامات اور ایک پاکستانی فرد کی چانسلر شپ کمپین پر اثر انداز ہونے کے لیئے ہمارا بھی حق ہے کہ ان کے بلاگ کا نا صرف تنقیدی جائزہ لیا جائے بلکہ اگر کہیں انہوں نے حقائق پر پردہ ڈالا ہے یا صحافتی اصولوں کی خلاف ورزی کی ہے تو ان کو بھی بے نقاب کیا جائے۔ موصوفہ نے عمران خان کی اس کمپین کو سبوتاژ کرنے کے لیئے جن نکات کا سہارہ لیا ہے وہ کچھ یوں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان نے ملعون سلمان رشدی جو توہین کا مرتکب ایک ثابت شدہ مجرم ہے کے ساتھ ایک انڈین ٹی وی چینل پر کسی موضوع پر بحث کے لیئے بیٹھنے کے لیئے انکار کر دیا تھا ور انہیں گستاخ کہا تھا تو کیا ایسے شخص کو آکسفورڈ کا چانسلر ہونا چاہیئے یعنی وہ کسی کی آزادی اظہار رائے کے حقوق سلب ہونے کا عندیہ دے رہی ہے مگر وہ یہ شاید نہیں جانتی کہ اس شخص کو نا صرف عمران خان نے گستاخ کہا ہے بلکہ کئی ممالک نے انہیں"شیطانی آیات" جیسی تصنیف لکھنے پر ایران و دیگر حکومتوں نے ان پر گستاخی کے چارجز لگائے ہیں۔

مزید براں یہ بھی شاید وہ نا جانتی ہوں کہ اسی بحث میں جس میں عمران خان نے ان کے ساتھ بیٹھنے پر انکار کیا تھا اسی پروگرام میں اس ملعون نے عمران خان کو نا صرف گالیاں دیں بلکہ ڈکٹیٹر تک کہا تھا جو کہ آزادی اظہار رائے پر ایک خود قدغن ہے۔ اسی متعلق سوال پر عمران خان نے ایک پروگرام میں یہ جواب دیا تھا کہ یہ ملعون ایک لو مائینڈ سیٹ کا آدمی ہے، میں اس پر کیا بات کروں۔ مزید یہ کہ ایک مسلمان معاشرے کے بارے میں جاننے والا جو یہ جانتا ہے کہ ایک مسلمان معاشرہ جو مذہب سے لگاوُ رکھتا ہے جو یہ جانتا تھا کہ ایسا کرنے سے اربوں میں موجود مسلمانوں کے دل دکھیں گے اس نے ایسا کیا مگر کیتھرین بینیٹ کو عمران خان کا بحث کا حصہ نا بننے نے تکلیف تو پہنچائی جو ہر ایک کا ذاتی حق ہے مگر دنیا میں موجود دوسرے بڑے مذہب کے پیروکاروں کے مذہبی جذبات مجروح کرنے کو شاید وہ درست مانتی ہیں۔

مزید ان موصوفہ نے کہا کہ عمران خان نے اپنے ملک کی پارلیمینٹ میں اسامہ بن لادن کو شہید کہا جو یقیناً دنیا میں ایک بڑی تعداد میں موجود لوگوں کے لیئے متنازعہ ہوگی یقیناً اسامہ نے یقیناً پاکستانیوں سمیت کئی سویلین لوگوں کی جانیں بھی لی ہیں مگر یہ ساری بات امریکہ کے پاکستان میں وار آن ٹیرر اور سیاسی مدعا میں کی گئی بات تھی چلیں مان لیتے ہیں کہ شاید یہ غلط کہا ہو اگرچہ عمران خان نے ہمیشہ القاعدہ کی ایکٹیویٹیز کی مذمت بھی کی ہوئی ہے حتی کہ بی بی سی کے ایک ایڈیٹر نے یہ تک لکھا تھا کہ عمران خان نے ایسا اس وجہ سے نہیں کہا تھا کہ یہ انکی 9/11 کے واقعات کے ماسٹر مائینڈ کے ساتھ کسی لگاوُ کی وجہ سے ہے بلکہ یہ ایک سیاسی ماحول میں کی گئی بات تھی۔

تیسری اہم بات انہوں نے کی کہ عمران خان دنیا میں ہونے والے ریپ کی وجہ عورتوں کو یا انکے کپڑوں کو قرار دیا مگر ایسا کہنا ناصرف ایک بھونڈی حرکت ہے بلکہ مجرمانہ صحافتی غلطی ہے۔ عمران خان نے ضرور ایسا کہا تھا کہ عورتوں کا لباس مناسب ہونا چاہیئے کیونکہ مرد روبوٹ نہیں ہوتے۔ اس بات پر دنیا کے بڑے بڑے پلیٹ فارمز پر ایک بحث چھڑ گئی اور دو گروپس اٹھ کھڑے ہوئے پاکستان میں ایک لبرل سائیڈ اور کنزرویٹو سائیڈ۔

لبرل سائیڈ نے سوال کیا کہ کیسے عمران خان یہ کہہ سکتے ہیں مگر عمران خان نے ایک سے زیادہ مواقع پر باقاعدہ اسکی وضاحت دی کہ وہ کسی بھی ریپ کا مجرم ریپ کرنے والے کو مانتے ہیں نا کہ ریپ ہونے والے کو۔ انہوں نے کہا کہ انکا یہ جملہ اصل مدعا سے ہٹ کر لیا گیا۔ مزید انہوں نے وضاحت دی کہ چاہے عورت جیسا بھی لباس پہنے اصل مجرم ریپ کرنے والا ہی ہے مگر میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ ہر سوسائٹی کی کچھ روایات ہوتی ہیں اور ہمارے معاشرے میں نا صرف عورتوں کے ساتھ ریپ کے کیس بڑھ رہے ہیں بلکہ بچوں کے ساتھ کیس بھی ایسے رپورٹ ہو رہے ہیں تو وہ چاہتے ہیں کہ ایسے عوامل و عناصر کی بھی حوصلہ شکنی ہو جس کی وجہ سے ریپ جیسے جزبات بھڑکیں مزید پردہ اور قرآن پاک میں مردوں کی نظر کے پردہ کا حوالہ بھی دیا۔ ان سب وضاحتوں کے باوجود ایک پہلے بولے گئے جملے کو دلیل بنانا واضح کرتا ہے کہ یہ ذاتیات پر مبنی مخالفت تو ہو سکتی ہے لیکن صحافت نہیں۔

اسکے بعد موصوفہ نے کہا کہ عمران خان طالبوں کے بہت قریب ہیں اور انکی پالیسیز کا دفاع کرتے ہیں جیسا کہ بچیوں کی تعلیم کے خلاف ہونا جبکہ یہ حقائق کے بالکل برعکس ہے عمران خان کی آن ریکارڈ باتیں موجود ہیں انہوں نے کبھی بھی ایسی پالیسی کا دفاع نہیں کیا بلکہ یہ کہا کہ ہر چیز کو کرنے کا ایک طریقہ کار ہے اور علاقہ کی روایات کے ساتھ اسکو کرنا چاہیئے جیسا کہ ایک تقریر میں انہوں نے کہا کہ پشاور میں بچیاں خود تعلیم کے لیئے آتی ہیں مگر بارڈر کے قریب علاقوں کے لوگ وظائف کے باوجود بچیوں کو تعلیم کے لیئے بھیجنے سے ہچکچاتے ہیں جو ایک حقیقت ہے وہ کہنا یہ چاہتے تھے کہ اگر ان علاقوں کی روایات کے مطابق کیا جائے تو اس کا بہترین حل ضرور نکل سکتا ہے۔

مزید براں وہ افغانستان کی موجودہ حکومت کے لوگوں کو ہمیشہ سے ایک سیاسی قوت بھی سمجھتے ہیں اور یہ وہ بہت پہلے سے کہتے آئے ہیں کہ ان سے ڈائیلاگ کا طریقہ کار اپنایا جائے جس کو اب امریکہ بہادر نے خود بھی نا صرف مانا ہے بلکہ پچھلے تین سالوں میں انہیں قریب بیس ارب ڈالر کی امداد مختلف بہانوں سے دی ہے اب ایسی دوغلی پالیسی سمجھ سے باہر ہے مگر کیتھرین بینٹ امریکہ کو اسی کام کے لیئے شاید تنقید نا کریں مگر عمران خان پر الزام عائد کر دیا گیا۔

اب آتے ہیں اصل مدعا پر کیا پاکستان میں موجود لوگ کیتھرین بینٹ کے اس بلاگ کو اس لیئے سر پر سوار کیئے ہوئے ہیں کہ وہ عمران خان کو سلمان رشدی کے ساتھ نا بیٹھنے اور اسے گستاخ کہنے پر مجرم گردانتی ہے؟ کیا ایک پاکستانی مسلمان کو اس پر سوچنا نہیں چاہیئے۔ کیا وہ کام جو امریکہ خود کر رہا وہی بات کرنے پر عمران خان مجرم ٹھہرے گا اور سب سے بڑھ کر ایک حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پاکستان کے مین سٹریم میڈیا سمیت سوشل میڈیا پر کیتھرین بینیٹ جو شاید سیکنڈ یا تھرڈ لیول کی ایک صحافی ہیں انکا بلاگ مسلسل ڈسکس ہو رہا ہے، مگر بی بی سی سمیت بہت سینئر صحافیوں کے کالمز جو اسی موضوع پر لکھے گئے وہ زیر بحث کیوں نا ہیں حتی دی گارڈین کے ایجوکیشن سے متعلق پیج کے کالم کو بھی ڈسکس نہیں کیا جا رہا حالانکہ موضوع خالصتاً ایجوکیشن سے متعلق ہے۔ ان سب باتوں پر جب غور کریں تو ناصرف انسان دنگ رہ جاتا بلکہ خوف بھی آتا کہ سلمان رشدی کی گستاخی جیسے معاملات کو اگنور کرکے اسکے نام سے کی جانے والی تنقید کو بھی سر آنکھوں پر بٹھایا جا رہا ہے اور سب سے بڑھ کر کیتھرین بینیٹ پاکستان میں کس کی دوست یا کس کے قریب ہیں یہ موضوع بھی انتہائی قابل غور ہے۔

ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ ایک پاکستانی کا آکسفورڈ یونیورسٹی کا چانسلر بننے پر پاکستانیوں کو ہی کیا تکلیف ہو سکتی ہے کیوں انکو اس پر اعتراضات ہیں کیا ایسے ظرف کے ساتھ معاشرہ اور ملک و قوم ترقی کرتے ہیں یا جو اس وقت ملک کے حالات ہیں وہ ہوتے ہیں۔ یہ سوچنا تو آپ کا کام ہے۔۔ سوچیئے پورا سوچیئے۔۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali