Waham Ki Siasat
وہم کی سیاست
گزشتہ ساڑھے تین سال عجیب کشمکش کا شکار رہے ہیں یہ ساڑھے تین سال تبدیلی کے سال تھے اور ان ساڑھے تین سالوں میں تبدیلی آبھی چکی تھی نئے پاکستان کی تبدیلی۔ نئے مسائل کی تبدیلی۔ اور نئے عوام کی تبدیلی۔
نئے پاکستان اور نئے مسائل کی تبدیلی سے تو آپ باخوبی واقف ہیں نئی عوام کی جو تبدیلی رونما ہوئی وہ ہے ہماری یوتھ۔ جو بہت عرصے سے سوئی ہوئی تھی پھر اس نئے لیڈر نے آکر نئے پاکستان کا راگ سنا کر اس یوتھ کو خواب خرگوش سے جگایا اور ایک نیا ولولہ پیدا کیا اور ایک نئے پاکستان سے متعارف کرایا اور اس کے ساتھ ساتھ انہیں پرانے پاکستان کے لاتعداد مسائل سے آگاہ کرکے پرانے پاکستان کی لاش پر مٹی ڈال کر نئے پاکستان اور اس کے کپتان سے پیار کرنے کا طریقہ بھی سکھایا۔
اب یہاں ایک انتہائی دلچسپ بات ہے اس یوتھ میں نہ صرف ینگ حضرات شامل تھے بلکہ ہر جاتی عمر کے شخص نے بھی اس کو اس لیے جوائن کیا کہ میں ابھی جوان ہوں۔ ہر عمر کی خواتین نے اس کو جوائن کرنا خوبصورت عمل قرار دیا کیونکہ لیڈر آکسفورڈ کا کوالیفائیڈ بھی تھا اور ساتھ میں ہینڈ سم بھی۔ کہا جاتا ہے کہ خواتین کسی بھی عمل، تحریک کو تیز کرنے کا ستر فیصد ہوتی ہیں۔
اب ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ ان کے خلاف جائیں ورنہ نتائج جلد آپ کو بھگتنا پڑتے ہیں لہذا یہاں پوری کی پوری فیملیز نئے کپتان کے ولولہ انگیز جوش و جنون دھوم دھڑکے والے نئے پاکستان میں جوک درجوک شامل ہوتی چلی گئیں۔ کپتان کی اس فیلڈ میں چھوٹے بڑے بچے بوڑھے جوان لاغر پڑھے لکھے ان پڑھ ہر قسم کے مرد حضرات اور ہرقسم کے شعبے سے خاص طور پر ناچنے گانے والے شعبہ ہائے سے منسلک افراد۔۔ ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا کی مصداق کے تحت دھڑا دھڑ تحریک انصاف کا حصہ بنے اور مزے کی بات یہ ہے کہ یہ جماعت ہلہ گلہ موج مستی پارٹیاں کرنے والی جماعت ہے اگر اقتدار میں ہے تب بھی مزے اور اگر اقتدار میں نہیں ہے تب بھی مزے۔
ہر روز ہونے والے رنگ برنگے جلسے میوزیک نغمے جوشیلی تقریریں جلسوں میں شامل خواتین کی اٹھکیلیاں دوسری پارٹی پر اخلاقیات سے عاری الزامات جگتیں فنی بینرز سارا سال چلتے ہیں اور ان سب کا کامن ایجنڈا پاکستان کو ریاست مدینہ بنانا ہے۔
پاکستان کو ریاست مدینہ کپتان بنا رہا تھا یا بنائے گا کیوں کہ نعوذباللہ کپتان میں حضرت عمر کی سی کوالٹیز ہیں کپتان نے عوام کے دماغوں میں خود سے محبت کا خناس بھر دیا اور کس ہوشیاری سے ان کی برین واشنگ کی کہ یہ لوگ نعوذ باللہ اسے اعلی ہستیوں اور پیغبروں سے ملا رہے ہیں بے حد افسوس اور شرم کا مقام ہے پورا سال مخلوط جلسے بے حیائی کو فروغ دینے والا یہ لیڈر ریاست مدینہ کی بات کرتا ہے اور اس کی یوتھ کیسے اس شخص کومقدس ہستیوں سے برابری دے رہی ہے شاید یہی تبدیلی تھی کہ ایسا لیڈر جو بغیر زیرو کارکردگی کے کس طرح اس قدر پسندیدہ ترین لیڈر ہو سکتا ہے کہ لوگوں کو ملک کی تباہی سے قطع نظر بس اس کی شخصیت اس کے جھوٹ دلفریب لگ رہے ہیں کیونکہ وہ جھوٹ بھی بہت عمدہ اور بااعتماد انداز میں بیان کرتا ہے کہ وہ سچ لگتے ہیں وہ جانتا ہے کہ سب اس کے کنٹرول میں ہے اور سب اس کے کنٹرول میں ہیں۔
وہ الوژن آف کنٹرول کا شکار رہا ہے مگر اب بھی جب اسے اقتدار سے نکال باہر پھینکا وہ اس الوژن آف کنٹرول کے خمار میں مست ہےکہ وہ اپنے ہر عمل میں ٹھیک ہے اور اب بھی ملک کی ایک بڑی تعداد پر اس کا کنٹرول ہے اور بڑی تعداد میں لوگوں کا اس کے ساتھ ہونا اس کی خود پسندی کی وجہ بنا جس کے بل بوتے پر کبھی اس نے آئین پر حملہ کیا کبھی اداروں کو نشانہ بنایا اور کبھی بیرونی سازشوں کی اصطلاح استعمال کرکے خود کے دفاع کے لئے غلط صورتیں پیدا کرتا رہا اور اس یوتھ نے اس کے ہر عمل میں اس کا ساتھ دے کر ملک کے معزز اداروں کو بد نام کیا ایک فاشسٹ لیڈر کی خصوصیات میں سے ہے کہ وہ کس طرح عوام کو جلد اور نفسیاتی طور پر متحرک کرتا ہے اور ناپسندیدہ حالات میں بھی اقتدار کے ساتھ چپکے رہنے کی چالیں چلتا ہے اسے پتا ہے کہ اس سادہ لوح اور بے شعور عوام کو کبھی قرآن و سنت سے حوالہ دے کر بے وقوف بنایا جا سکتا ہے تو کبھی ریاست مدینہ کے خوبصورت اور جھوٹے خوابوں میں الجھا کر۔
لاؤڈ خطاب کرکے چکمہ دینا اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل رہا ہے اور کس طرح اس نے عوام کو فوج اور اداروں کے خلاف بغاوت پر اکسایا ہے یہ سب اس کے ناپاک عزائم میں شامل تھا پھر اس پروپیگنڈہ لارڈ کی دوسری انتہائی تیز چال ذرائع ابلاغ پر کنٹرول کرنا ہے جس سے اس نے میڈیا کی تمام مین سٹریم کو اپنے مطابق چلایا اور باور کرایا کہ ملک کا ہر ادارہ ہرتنظیم ہرمکتبہ فکر اس کے ساتھ ہے اور وہم کی اس سیاست کا مشن بس ہر فرد کو یوتھ فورس میں شامل کرکے جھوٹے خوابوں کے نشے میں دھت کر کے اپنے اس جھوٹے پراپیگنڈے کی بھینٹ میں اتارنا تھا۔

