Shakhsiyat Parasti Ka Ataab
شخصیت پرستی کا عتاب
ایک نسل کی جہالت دوسری نسل کی روایت بن جاتی ہے اور تیسری نسل کا مذہبی عقیدہ بن جاتی ہے اور پاکستان میں نفع و نقصان کہاں دیکھا جاتا ہے؟ یہاں تو اندھی تقلید کی روش جاری و ساری ہے۔ یہ قوم دیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہے چلو تم ادھر کو، ہوا ہو جدھر کی۔
فہم و فراست اور ویژن کے بغیر اس قوم کا سارے کا سارا مفاد بس ایک سیاسی لیڈر سے وابستہ ہو جاتا ہے۔ کہہ رہے ہیں کہ ہم بھوک برداشت کر لیں گے ہم ملک میں بے روزگاری، بدامنی، معاشی لا چارگی اور لاقانونیت سب اپنے ہیرو کی محبت میں قربان کرنے کو تیار ہیں۔
صحیح کہا جاتا ہے کہ عشق اندھا ہوتا ہے اور اس اندھے عشق میں یہ قوم اتنی نابینا ہو چکی ہے کہ آپ کتنا بھی حق کا چراغ لے کر ان کے سامنے جاؤ مگر اس اندھی تقلید میں یہ لوگ آپ ہی کو پاگل اور مجنوں قرار دے دیں گے۔ یہ حقیقت ہے کہ اس ملک کو بہت عرصے بعد ایک خوبرو، بلند قد و قامت، سحر انگیز شخصیت، پر اثر لہجہ، بے نیازی کا سا سٹائل ہولڈر، ایک ہیرو لیڈر کی صورت میں ملا ہے۔
جو یوتھ کا آئیڈیل نام نہاد لبرل حضرات کا بےباک کپتان فلم وشوبزکی دنیا کا ٹام کروز اور حتیٰ کہ پاکستان کے ہر شعبے سے منسلک افراد اس کی وجاہت اور دیدہ دلیری کے اسیر ہیں اور اس سادہ لوح عوام کو شاید پہلی مرتبہ بڑے عمدہ خطاب کرنے والا شخص ملا جس نے کبھی ریاست مدینہ کے خواب دکھا کر انہیں الو بنایا، کبھی امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دشمن سے نہ ڈرنے کے سین فلما کر اس بیوقوف عوام کے دلوں کو لوٹا۔
شخصیت پرستی، آئیڈیلزم کوئی برائی نہیں ہے یہ ایک محبت ہے، ایک اطاعت اور ایک عقیدت بھی ہے مگر عقیدت جب حد سے بڑھ جائے تو معاملات بھی بگڑ جاتے ہیں۔ اچھے برے کی پہچان نہیں رہتی، لوگ خود سے ہونے والے مظالم کو سمجھ نہیں پاتے، ان کے حقوق کی پامالی انہیں پامال نہیں کرتی ایک ہی شخص سے نسبت رکھنے کا مقصد اور وجہ ان کے آباؤ اجداد کا طریقہ ان کی مذہبی رسم ان کی ذات کی ا نا اور ان کی پسند کا معیار ہوتی ہے۔
اور اس معیار سے ایک انچ بھی نیچے آنا ان لوگوں کی انا کے نظریے اور ان کے بڑوں کی روایت اور ان کے ذات پات کے نام نہاد بت کو پاش پاش کر دیتا ہے۔ پھر ان کے لئے لازم ہے کہ اپنے لیڈر کی محبت میں چاہے کچھ بھی کر جائیں خود کو آگ لگا لیں یا دوسروں کو جلا دیں ملک کو نقصان پہنچائیں، اداروں کی بے حرمتی کریں، عدلیہ کے فیصلوں پر داغ ثبت کریں، فوج پر انگلیاں اٹھائیں، لاقانونیت پھیلائیں سب کار خیر ہے۔
دانہ و دام سنبھالا ہے میرے صیاد نے پھر
اپنی گردن ہے وہی عشق کا پھندا ہے وہی
شخصیت پرستی یہودونصاریٰ کا فعل ہے قرآن کریم میں سورۃ توبہ کی آیت نمبر 31 میں اللہ کا فرمان ہے کہ"ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور درویشوں کو رب بنایا ہے"۔
یہ قوم ہمیشہ سے ایک فتورمیں ہے اور یہ فتور شخصیت پرستی کا ہے۔ پھر چاہے کوئی بھی ہو جس بھی لیول کا ہو، کوئی نام نہاد مذہبی اسکالر ہو یا کوئی پیر ہو، کوئی درویش ہو یا کوئی مجذوب یا پھر کوئی سیاستدان سارے کا سارا فیض، کرم، چارہ جوئی بس انہیں کے دم سے ہوتی ہے۔ یہاں بات صرف یہاں تک نہیں ہے حقیقت تو اس سے بھی بڑھ کر دلچسپ بھی ہے اور تکلیف دہ بھی۔ یہاں تو قبر کے مردوں سے بھی لوگ مرادیں پاتے ہیں ان کے مقبروں، درگاہوں، درباروں سے پاکستانی اکثریت کو شفا ملتی ہے۔
مزید یہ کہ یہ بطور سیڑھی خدا تک پہنچنے کا ذریعہ اور وسیلہ بھی ہیں مگر کیا یہ بات تعجب کے زمرے میں نہیں آتی کی عوام کو پاکستان اور اس کے مسائل سے بڑھ کر ایک لیڈر اس قدر عزیز ہوگیا کہ چاہے وہ غلط بھی کرے تو اس کے غلط کو من و عن تسلیم کر لیا جائے، چاہے ایسا لیڈر شخصیت پرستی کے اس زعم میں آئین پر حملہ کر دے اور اس کی اس خلاف ورزی کو ڈیفینسو ٹیکنیک کے طور پر پذیرائی دی جائے؟
لاکھوں کی تعداد میں عوامی طاقت رکھنے والا ایک لیڈر موسٹ فیورٹ لیڈر ہونے کے غرور میں آ کر چاہے آئین کی دھجیاں اڑا دے یا ملک کو ان گنت مسائل میں لا کھڑا کردے یہاں سب جائز ہے اسی لیے کہا گیا ہے کہ شخصیت پرستی بت پرستی سے زیادہ خطرناک ہے کیونکہ بت کا دماغ نہیں ہوتا جو خراب ہو جائے البتہ جب آپ انسان کی پوجا کرتے ہیں تو وہ فرعون بن جاتا ہے۔

