Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Xaha Islam
  4. Phir Qanoon Ka Rape Hua

Phir Qanoon Ka Rape Hua

پھر قانون کا ریپ ہوا ہے

جی ہاں۔۔ ہر بار کی طرح اب بھی پنجاب کے شھر پتو کی میں قانون کا ریپ ہوا ہے۔ میں اسے ریپ ہی کہوں گی۔ قانون کا ریپ۔ قانون کی عصمت دری۔ قانون کی نیلامی۔ جب تک عوام الناس اسے اپنے ہاتھوں میں لیکردوسروں کی جان مال اور عز توں کی پامالی کرتے رہیں گے یہ اسی طرح تارتار ہوتا رہیگا۔

پنجاب کے شہر پتوکی میں ہونے والایہ واقعہ اپنی نوعیت میں مختلف نہیں ہے بلکہ ایسے درجنوں واقعات اس معاشرے میں وقوع پزیر ہوتے رہے ہیں جو کہ معاشرے کی بڑھتی ہوئی بے حسی کی عکاسی کرتے ہیں۔ اس قسم کے واقعات ایک دن میں سامنے نہیں آتے بلکہ انہیں معاشرے کی بری اقدارغلط رویےّ احساس کمتری تربیت کا فقدان مادیت پسندی جیسے عوامل سے گزر کر رونما ہونا ہوتا ہے۔

ظلم صرف یہاں تک ہی نہ تھا کہ پتوکی میں ایک پاپڑفروش کو بےدردی سے ماردیا گیااس سے بڑھ کریوں ہوا کہ لوگ اس کی لاش سامنے رکھ کر کھانا کھاتے رہے بجا اس کے کہ ماتم کیا جاتا۔ معاشرہ اس قدر زوال پزیر ہوچکاہے کہ نہ تو یہاں ماردینا اتنی بڑی بات ہے اور نہ ہی مارنے کے بعد لاش کو ایک طرف پھینک دینا۔

سیالکوٹ میں گزشتہ ہونے والے سری لنکن شہری پریانتھاکماراجوکہ فیکٹری میں بحیثیت مینجر تعینات تھے اسے اسی فیکٹری میں کام کرنے والے ورکرزنے کس قدر بہیمانہ تشدد سے قتل کیااوراسکی لاش کو نہ جانے کتنی ہی دیر ذدوکوب کرتے رہےاور آخر میں لاش کو آگ لگادی نہ ہی آسمان گرا اور نہ ہی زمین پھٹی۔

ہم بحیثیت ایک مسلمان قوم کس قسم کے معاشرے کی آبیاری کررہے ہیں کیا ہمارااسلام اور اسکی تعلیمات ہمارے اسقدر گھناؤنے رویوں کی پاسداری کرتے ہیں؟ کہ جب کوئی وجہ نہ ملےتو آپ دوسرے شخص کو مذہب کی بےحرمتی اور جیب کاٹنے کا الزام لگا کر قتل ہی کرڈالو۔ قانون ہاتھ میں لےلو اور اپنی عدالتیں کھڑی کرلو۔ کیا ایک شخص کا قتل بس ایک ہی شخص کا قتل ہے؟

قرآن کریم میں ہے۔ " ایک معصوم شخص کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے " سورۃ المایدہ

افسوس صدافسوس کہ ہم مسلمان ہونے کا دعویٰ تو کرتے ہیں مگر خدا اور اس کے احکامات کی سرعام نافرمانی میں ملوث ہیں۔ ہمارا معیار یہ نہیں کہ ہم کتنے مسلمان ہیں ہمارا معیار یہ ہیکہ آیا اگر ایک غیرمسلم سے غیرارادی طور پر لغزش ہوجاۓتو اسے موت کے منہ میں اتار دو۔

تشویش اس بات کی بھی ہے کہ لوگ کیوں پاکستان میں قانون اپنے ہاتھ میں لے رہے ہیں ظلم کی بڑھتی ہوئی یہ شرح کنٹرول کیوں نہیں ہورہی قانون بنانے والے اور اس پر عمل درآمد کرانے والے ادارے حرکت میں کیوں نہیں آتے کیا اس سست نظام اور قانون کا اطلاق کرانے والے اداروں کے پیچھے طاقتور چھپے ہیں کیا مالی مستحکم افراد ظالموں کا بھرپور دفاع کرتے ہیں کہ اگر ایسے ظالموں کے خلاف کارروائی ہو بھی جاتی ہے تو کچھ عرصے بعد انہیں با عزت بری کر دیا جاتا ہے۔ کیا یہاں قانون کے ہاتھ صرف غریب پر ہی پڑتے ہیں ہمیشہ بااثر افرادھی اس کے جال سے کیونکر بالاتر رہتے ہیں۔

میڈیا کا کردار صرف چار دن ایک سانحے پرشوروغل کرنا ہےآخر ہر دن ہونے والاظلم چند دن دوسروں کے ٹاک شوز چمکا کر اسی شدت سے ختم کیوں ہو جاتا ہے جتنی شدت سے وہ ہر زی شعور کی زباں پر رقم تھا۔ کیا ایسے سانحات کو بھلا کر آگے بڑھا جاسکتا ہے؟ نہیں ہرگز نہیں۔ ہم ایسے افسوسناک سانحات سے درگزر نہیں کرسکتے ہر ظلم ایک نۓ ظلم کو جنم دیتا ہے ایک ظالم دوسرے سفاک جنتا ہے اور دیگر جرائم کو شے دیتا ہے۔

ایسے مظالم فی الفور حل طلب ہیں بروقت کارروائی معاشرے کو اس سفاکیت کی دلدل سے نکال سکتی ہے۔ پتوکی میں ہونے والے اس غیر انسانی عمل نے پورے ملک کو پابند کردیا ہیکہ ذمہ داروں کو قانون کے مطابق سزایاب کرایا جاۓ۔ پولیس اور حکومت اپنے اس اولین فرض میں ذرا سی بھی غفلت نہ برتیں۔

مزید یہ کہ اس طرح کے جرائم کیلۓ سخت سزائیں اور قوانین متعارف کرائی جائیں اور انکا فی الفور نفاذ عمل میں لایا جاۓتا کہ ظالم اپنے انجام کو پہنچے اور انصاف کے تقاضے پورے ہوں وگرنہ اگر اب بھی اقدامات نہ کیۓ گۓ معاشرہ مزید سے مزید تر سرکش اور باغی ہوتا چلاجائیگا اور قانون یونہی بکتا رہے گا۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan