Noor Muqaddam Case Azad Adliya Ka Aik Aur Azad Qadam
نورمقدم کیس آزاد عدلیہ کا ایک اور آزاد قدم
اسلام آباد کی مقامی عدالت نے22 فروری 2022 میں نور مقدم کیس کا حتمی فیصلہ دے دیا جس میں مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو سزائے موت اور دو ملازمین کو دس، دس سال قید کی سزا سنائی گئی۔ عام طور پر پاکستانی عدالتوں میں قتل کے مقدمات کا فیصلہ اتنی جلدی نہیں ہوتا مگر اسلام آباد ہائی کورٹ نے ٹرائل کورٹ کو دو ماہ میں اس کیس کو حل کرنے کا آرڈر دیا تھا جس سے عدالت کا یہ فیصلہ اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ پاکستان میں عدلیہ آزاد اور خود مختار ہے۔
کسی بھی معاشرے میں عدالتیں ایک مشینری کی طرح کام کرتی ہیں جو فوری طور پر گرتی انسانی قدروں کو درست کرتی ہیں اور معاشرے کے اخلاقی ڈھانچے کو مستحکم کرتی ہیں اور لوگوں میں ایسا شعور اور خوف پیدا کرتی ہیں جس سے لوگ ایک دوسرے کے حقوق و فرائض کا احترام کرتے ہیں اس کے لئے ضروری ہے کہ عدلیہ آزاد اور خودمختار ہو، قانون کی حکمرانی ہو اور عدالتیں ہر قسم کے سیاسی یا حکومتی تعصب کے اثرات سے بالادست ہوں۔
نورمقدم قتل کا فیصلہ جہاں پاکستانی عدالتوں کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی اہمیت رکھتا ہےوہیں یہ معاشرے میں انسانی قدروں کی قیمت کو بھی اجاگر کرتاہے اور یہ کہ ملزم خواہ کتنا ہی اثرو رسوخ والا اور طاقتور ہو قانون کے شکنجے سے نہیں بچ سکتا اور ایک آزاد عدلیہ ایسے بےجا اثرو رسوخ سے بالا تر ہوکر ظالموں کا تعاقب کرتی ہے اور عدل و انصاف کا نفاز عمل میں لاتی ہے۔
عدلیہ ایک گورنمنٹ کا تیسرا اور اہم ستون ہے جو ایک گورنمنٹ کی ترجمانی، آئین کی حفاظت اور قانون کی بالادستی کو یقینی بناتا ہے۔ قانون کے صحیح اطلاق اور نفاز کے لیے اسکی اصطلاح کرتاہے مقننہ اور ایڈمنسٹریشن کے ہاتھوں قانون میں ہونے والی بےضابطگیوں کو درست طریقے سے منظم کرنا ایک عدلیہ کے فرائض میں شامل ہے۔
کسی بھی ملک کی معاشی، معاشرتی اور سماجی ترقی کا راز اس ملک کی عدلیہ پر منحصر ہے کہ عدلیہ معاشرے میں ہونے والی بےربطگیوں، ناانصافیوں اور انسانی اقدار کی پامالی اور ان کے حقوق کے استحصال پر کس قدر جلد متحرک ہوتی ہے اور قانون کے مطابق آرڈرز جاری کرتی ہے اور حقوق بحال کراتی ہے۔
پاکستان کا آئین قتل کے مقدمات میں سست روی کا شکار رہا ہے یہاں سنگین نوعیت کے مقدمات بہت طویل عرصے تک جاری رہتے ہیں۔ سابق وفاقی وزیر قانون اور معروف قانون دان ڈاکٹر خالد رانجھا ایڈوکیٹ نے قتل کے کیسز میں تاخیر کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اکثر مقدمات میں سائلین یہ کہ کر وکلا کو اگلی تاریخ لینے کا کہ دیتے ہیں کہ ہمارے درمیان صلح چل رہی ہے انہوں نے کہا کہ تاریخیں لینے والا معاملہ نہیں ہونا چاہئے اور انہوں نے مزید کہا کہ قتل کے مقدمات جلد حل ہو سکتے ہیں اگر حالات کو بہتر کرنا ہے تو ہمیں وہ نظام متعارف کرانا ہوگا جو باہر کی دنیا میں رائج ہے وہاں جب قتل کا ٹرائل چلتا ہے تو مسلسل چلتا ہے اور تاریخیں نہیں لی جاتیں "۔
اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عدلیہ کے کیا فرائض ہیں کہ وہ مقدمے کو آگے بڑھاۓ تو اس کے جواب میں ڈاکٹر خالد رانجھا نے کہا کہ عدالت مدعی اور ملزم جب تک ایک پیج پر نہ آئیں مقدمہ آگے نہیں بڑھ سکتا ہاں اگر آئینی ترمیم کے زریعے ججز پر زمہ داری لگادی جائے کہ کیس اپنے انجام کی طرف بڑھے تو پھر یہ نظام التوا کا شکار نہیں ہوگا۔
مقدمات میں تاخیر کی ایک بڑی وجہ عدالتوں کی کم تعداد بھی ہے بڑھتے ہوۓ کیسز کی شرح کے ساتھ نئی عدالتوں کا قیام عمل میں نہیں لایا گیا اور نہ ہی سسٹم کو بدلتے ہوئے جدید تقاضوں کے مطابق اپڈیٹ کیاگیا جس کی وجہ سے ٹرائل بہت سی پیچیدگیوں کا شکار رہتے ہیں۔ بعض اوقات قتل کے مقدمات اس لئے بھی مؤخر کردئےجاتے ہیں اور مختلف حربے استعمال کیے جاتے ہیں تاکہ گواہان ادھر ادھر ہوجائیں اور ریکارڈ ایک لمبے عرصے کے بعد باقی نہ رہے۔
اگر یہاں امریکہ اور برطانیہ کی بات کی جائے تو وہاں جیوری سسٹم ہے جیوری یہ طے کرتی ہے کہ فلاں شخص مجرم ہے اور عدالت کاکام بس مجرم کو سزا دینا ہوتا ہے برطانیہ کا قانون پاکستانی آئین کی طرح کوڈیفائیڈ نہیں ہے لہذا اسکی خصوصیت یہ ہے کہ اسے آسانی سے حالات و واقعات میں ڈھال لیا جاتا ہے جو سپیڈی ٹرائل اور بروقت ریمیڈی کا زریعہ ہے۔
جبکہ پاکستان میں آج تک قانون کو بدلتے ہوۓ حالات کے مطابق نہیں ڈھالا گیا اور نہ ہی پارلیمینٹ اتنی اہلیت رکھتی ہے کہ بہتر ترامیم کرسکے پاکستان میں جیوڈیشل ریفارمز کی ضرورت بھی سخت ناگزیر ہے چونکہ ہم اب تک انگریزوں کے ہاتھوں بنے ہوۓ قانون ہی کو عدالتوں میں قائم کیۓ ہوۓ ہیں لہٰذا بہت مشکل ہے کہ قانون کو کسی نۓ پہلو سے دیکھیں اور ہماری مقننہ اس قابل نہیں کہ فرسودہ نظام کے اس قانون کو ترویج دے پس بہت کچھ بدلنا باقی ہے۔

