Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Xaha Islam
  4. Nakam Riyasaten

Nakam Riyasaten

ناکام ریاستیں

ریاستیں اکثر اندرونی دباؤ کے شکنجے میں آجاتی ہیں جب وہ اپنی عوام کو بہتر طریقوں سے سہولیات فراہم کرنے میں ناکام ہو جاتی ہیں۔ ایسی ریاستیں اپنی قانونی حیثیت کھودیتی ہیں اور جلد اپنے شہریوں کی جانب سے تعصب انگیزی کا شکار ہو جاتی ہیں۔ حکومتیں اکثر ایسے عروج و زوال کی زد میں رہتی ہیں اور یہ کچھ نیا نہیں ہے، مگر اس دور جدید میں جب ایک ریاست دنیا کے نقشے پر ابھر کر اپنی انفرادیت اور قانونی حیثیت ظاہر کرتی ہے تو اسے بیرونی دھمکیوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔

بین الا قوامی تنظیمیں اور سپرپاورز اپنے طور پر ابھرنے والی ایسی ریاستوں کو ہر دم ناکام بنانے میں سرگرداں رہتے ہیں، کبھی اندرونی خلفشار میں الجھا کر کبھی ان کی مخالف قوموں کو ان کے خلاف اکسا کر بدامنی کا ذریعہ بنتی ہیں۔ لہٰذا بہت مشکل ہےکہ ایک ریاست، ایک ملک یا حکومت خود کو ایسے مسائل سے گزار کر اپنا لوہا منواسکے اور ترقی یافتہ اقوام کی صف میں کھڑی ہوسکے۔ اور یہ اکیسویں صدی کا فکرانگیز مرحلہ ہے کہ ایسی اقوام خود کو ناکام ریاست کے اثرات سے بچاسکیں۔

یہاں ایک ریاست کی اولین ترجیح یہ ہے کہ اپنے اور اپنے شہریوں کے بیچ کے فاصلوں کو تناؤ کا شکار نہ ہونے دےاور ایسے تعلقات کو فروغ دے کہ ملکی حالات نامناسب ہونے کے باوجود بھی عوام اور حکومت میں اتحاد قائم رہے۔ آج کے دور کی ریاستوں کو پہلے کی نسبت زیادہ چیلنجز کا سامنا ہے اور ان کی آبادی، آمدن، پیداوار، سرمایہ، طاقت، ترسیلی نظام اور حصول پہلے کی نسبت زیادہ وسعت طلب ہیں۔

سن 1914 میں تسلیم شدہ ریاستوں کی تعداد پچپن تھی پھر 1919میں تعداد انسٹھ ہوگئ تھی اور 1950میں یہ تعداد انہتر ہوگئ۔ دس سال بعد جب افریقہ مکمل طور پر آزاد ہوا تو دنیا میں کل نوے قومیں خودمختیار شمار ہونے لگی تھیں۔ اس کے بعد دیگر ایشیائی، افریقی اور بحری علاقے آباد اور خودمختیار ہوتے چلے گئے اور سوویت یونین کے انقلاب کے بعد ملکوں کی تعداد 191ہوگئ۔ بعد ازاں ایسٹ ٹائم کی آزادی نے سن 2002 میں ٹوٹل ممالک کو 192 کے نمبر میں تبدیل کردیا البتہ اس تعداد میں ناکام شدہ ریاستوں کا امکان ہمیشہ موجود رہےگا۔

جہاں ایک کامیاب ریاست اپنی عوام کو بہتر سہولیات سے آراستہ کرسکتی ہے وہاں سیکیورٹی کے معاملات اولین درجہ رکھتے ہیں۔ خاص طور پر انسانی جانوں کی حفاظت کے اقدامات ایک اچھی گورننس کا خاصہ ہے۔ عوام کو تحفظ کا احساس دلانا باقی معاملات کی نسبت زیادہ حساس جزو ہے اور زیادہ تنقید کا باعث بھی کہ انفرادی اور اجتماعی طور پر ان کی جانوں کا دفاع کرنا ناگزیر ہے۔

دوسرا اور اہم فرض جو ایک کامیاب ریاست کی پسندیدگی کا باعث ہے وہ ہے اپنے شہریوں کو بین ا لا قوامی سطح پر شناخت دلانا اورملک سے باہر ان کی جان مال اور عزتوں کی حفاظت کرنا ہے۔ اس کے لیۓ ریاست دوسری ریاستوں سے معاہدے طے کرتی ہے کہ اس کے شہری اس کے لیے اہمیت کے حامل ہیں اور ملک سے باہر ہونے والے ہر معاملے میں اپنی عوام کی فلاح کو پیش نظر رکھے گی۔

ایک کامیاب ریاست اپنے لوگوں کو سیاست اور سیاست سے جڑے تمام ارکان میں آزادیٴ رائے کا موقعہ فراہم کرتی ہے، تاکہ وہ آزادانہ اور مہذب طریقے سے حکومت اور اس کے تمام اداروں تک رسائی حاصل کرسکیں اور اپنا موقف پیش کرسکیں۔ ایک کامیاب ریاست کی خوبیوں میں شامل ہے کہ وہ اپنی عوام کو بہتر طبی سہولتوں کے ساتھ ساتھ اچھی تعلیم، آمدورفت کے بہتر انتظامات، ریلوے بندرگاہیں اور دوسرے انفراسٹرکچر کی فراہمی بھی مہیا کرتی ہے۔

جبکہ کمزور ریاستیں اپنی عوام کی آراء پر پورا نہیں اترسکتیں۔ وہ ریاست کے ایک حصے میں اگر کارکردگی دکھاتی ہیں تو دوسرا حصہ اس سے محروم رہتا ہے۔ جس قدر ریاستیں عدم توجگی اور عدم کارکردگی دکھاتی ہیں مزید ناکام ہوتی چلی جاتی ہے اور یہی ریاستیں ناکام ریاستیں کہلاتی ہیں۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari