Jang Aur Jinsi Tashadud
جنگ اور جنسی تشدد
جنگوں میں جنسی تشدد ہمیشہ تاریخ کا حصہ رہا ہے جہاں جنگ وہاں جنسی تشدد خواتین کے حقوق کی پامالی اور عصمت دری عام سی بات ہے جنسی استحصال ہمیشہ ایک جنگ میں ایک ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک شرمناک اور بزدلانہ فعل ہے مگر جنگ میں سب جائز ہے کی پالیسی کے مطابق دوسرے حقوق کی پامالی کے ساتھ ساتھ جنسی استحصال کرنا بھی اشتعال انگیزی کی صورت میں ایک انتقام کا ذریعہ ہے۔
دو ملکوں کی فوجوں کی لڑائی میں شکست خوردہ ملک کی خواتین اور بچیاں اس ظلم اور بربریت کا نشانہ بنتی ہیں اور اس بزدلانہ فعل کے اثرات نہ صرف ایک طویل عرصے تک جنگ کے متاثرین اور معاشرے پر ثبت ہو کر رہ جاتے ہیں بلکہ انٹرنیشنل پیس اور سکیورٹی کے لیے بھی خطرہ بنتے ہیں جنسی استحصال کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچے اس غیر فطرتی عمل کی بھینٹ چڑھتے ہیں معاشرہ انہیں قبول نہیں کرتا اور ان کے حقوق کا استحصال کیا جاتا ہے۔۔
عراق جیسے ممالک میں اکثر ایسے بچوں کو ماؤں سمیت ہلاک کر دینے کے کئ واقعات تاریخ میں درج ہوئے ہیں۔ جنگ عظیم دوم میں جنسی تشدد کے اس ظالمانہ جرم کا خوف ناک طریقے سے مظاہرہ کیا گیا جب اتحادی افواج نے بداخلاقی اور خطرہ پھیلانے کی غرض سے دشمن ملک کی خواتین کی عصمت دری کی اور یہاں بڑے پیمانے پر جنسی زیادتیاں ہوئیں۔
اس جنسی استحصال کی بدترین مثالیں جاپان اور روس کے سپاہیوں نے جرمنی خواتین کے خلاف رقم کیں۔ خواتین کے ساتھ جنسی استحصال کا یہ ظالمانہ فعل موجودہ دور میں بھی جاری ہے اور اس کی تازہ ترین مثال روس اور یوکرین میں ہونے والی جنگ میں دکھائی دیتی ہے اور روسی فوج یوکرین میں سرعام جنگی جرائم کر رہی ہے اور خواتین کی عصمت دری کے کئی واقعات سامنے آئے ہیں یوکرین نے دعوی کیا ہے کہ روسی فورسز 300 سے زیادہ جنسی استحصال کے کیسز سرزد کر چکی ہیں۔
یوکرین ملٹری نے کہا ہے کہ روسی افواج غیر اخلاقی کی ہر حد پار کر چکے ہیں وہ ہمارے شہروں پر بم برساتے ہیں انہیں مسمار کرتے ہیں انسانیت کو قتل کر رہے ہیں اور ہماری خواتین کی عزتوں کی پامالی میں ملوث ہیں 2 اپریل کو یوکرائن کی منسٹری آف ڈیفنس نے ٹویٹ میں ایک تصویر شیئر کی تھی جس میں ایک نیم برہنہ خاتون کی لاش سڑک پر پڑی تھی یہ تصویر ایک فوٹوگرافر میخائیل پا لینچک نامی شخص نے لی تھی جو کہ یوکرین میں ہونے والے اس ظلم کا منہ بولتا ثبوت ہے اور اگلے ہی دن ہیومن رائٹس واچ نے یوکرین میں ہونے والی اس روسی جارحیت پر رپورٹ مرتب کی تھی۔
جنگوں میں جنسی تشدد سے ہلاک کرنا نسل کشی کا ایک دوسرطریقہ ہے یہ ایک نفسیاتی جنگ ہے جس میں دشمن کو بے توقیر کیا جاتا ہے اور بے رحم حکمت عملی کے تحت دشمن کو مکمل طور پر تباہی کے دہانے پر پہنچاکر ختم کر دینا باغی جنگجوؤں کا سوچا سمجھا مشن ہوتا ہے جو کہ انٹرنیشنل جنگی قوانین کے خلاف ہے جنگی قوانین میں دشمن کے ساتھ غیر انسانی رویہ اپنانا عام شہریوں، بچوں، بوڑھوں اور خواتین پر ظلم اور انہیں بے توقیر کر کے قتل کرنا جنگ کے ضوابط کے خلاف ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جنگ کے حریف جنگی قوانین کی خلاف ورزی کیوں کرتے ہیں کیونکہ جنگ نہ صرف دو فریقین کے مابین تصادم کا نام ہے بلکہ یہ دو باغی اور منتشر دماغوں کی اشتعال انگیزی کی ایک صورت بھی ہے جو ایک ملک کے وجود پر متعصب اثرات مرتب کرتی ہے اور باقی دنیا کی سلامتی کے لیے بھی خطرناک الارم کا ایک عندیہ دیتی ہے۔
ایک ملک جنگ میں شامل اپنے سپاہیوں کو باغی جنگجوؤں میں تبدیل کر دیتا ہے جو جنگی قوانین کی پامالی، گینگ ریپ، لوٹ مار اور بہت سے دیگر بد نام زمانہ جنگی جرائم کا شکار ہو جاتے ہیں جس کی ایک مثال ہمیں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی ایک آرمی سولجر جس کا نام وینسا گویلن تھا اور جسے ایک دوسرے سپاہی ارون ڈیوڈ رابن نے 22 اپریل 2022 میں قتل کر دیا تھا، کے کیس میں ملتی ہے وینسا گویلن، ارون ڈیوڈ رابن سن کی جانب سے جنسی استحصال کا شکار ہوئی تھی اور بیس میں مردہ پائی گئی تھی۔
باغی جنگجوؤں کی جانب سے اپنی ہی ملٹری گروپ کے کسی دوسرے سپاہی کی جنسی استحصال یا تشدد کی وجہ سے ہلاکت کا یہ کوئی پہلا کیس نہیں ہے بلکہ کئی ایسے کیسز جنگی جرائم سے پیدا ہونے والے اسباب میں شمار ہوتے ہیں جنگی جرائم میں شامل جنسی استحصال کے اس ظالمانہ فعل کی حوصلہ شکنی بہت ضروری ہے یہاں نہ صرف یوکرین میں ہونے والے عام شہریوں کے حقوق کے استحصال کو روکنا ہے بلکہ کشمیر، بوسنیا، صومالیہ، لیبیا، عراق اور بہت سے دوسرے متنازعہ اور جنگی علاقوں میں جنسی تشدد کے نتیجے میں ہونے والے ریپ کے خلاف سنگین سزاؤں کا نفاذ لازمی ہے۔ اور انٹرنیشنل وارکرائمز ٹریبونل کیلۓ جنگی قوانین کی خلاف ورزیوں کے ایسے جرائم کے خلاف اقدامات کرنا ناگزیر ہے۔

