Ghor Talab
غور طلب
شادی دو لوگوں کے تاعمر مل جانے کا نام ہے یہ وہ حسین امتزاج ہے جس میں مرد اور عورت کے تمام تر مفادات ذہنی و جسمانی سکون مشترکہ ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزارنے کا یہ ایگریمنٹ صرف روایات، رواج اور سماج کی بنا پر نہیں کیا جاتا بلکہ ایک دوسرے کی ہر بات اور عمل کو عزت، پسندیدگی اور اعتماد کے زاویوں میں ڈھالنا شادی کے خوبصورت تصور کی اہمیت کو اجاگر کرنے کا نام ہے کیونکہ یہاں دو لوگوں کا رشتہ ازدواج میں منسلک ہونا نہ صرف ان کے لئے خوش آئند قدم ہے بلکہ دونوں سے جڑے دو خاندانوں کی خوشحالی اور بقا کا راز بھی ہے اور یوں ایک مکمل اور خوشحال سماج کا ارتقا ہوتا ہے۔
اسلام میں نکاح کو بہت پسندیدہ قرار دیا گیا ہے اسلام نے نکاح کے متعلق جو فکر اعتدال اور نظریہ توازن پیش کیا ہے وہ نہایت بے مثال نظریہ ہے شادی کا مقصد صرف فطری ضروریات کو پورا کرنا نہیں ہے بلکہ یہ احساس بندگی اور زندگی کے فلسفے کو تقویت بخشتا ہے جو سراسر عبادت سے منسوب ہے۔
لہذا آپ ﷺ کا فرمان ہے کہ جو کوئی نکاح کرتا ہے وہ آدھا ایمان مکمل کر لیتا ہے مگر افسوس کہ پاکستان میں شادی و نکاح کے اس پاکیزہ اورپرخلوص رشتے کو بھی دیگر تمام معاملات کی طرح لالچ اور دکھاوے کی بھینٹ چڑھتے دیکھا گیا ہے یہاں کب پیش نظر رکھا جاتا ہے کہ اسلام نکاح کے بارے میں کیا احکامات بیان کر رہا ہے اور قرآن نے ہمیں کیا تعلیمات دی ہیں اور نبی کریم ﷺ کی ازدواجی زندگی کس طرح ہمارے لیے ایک آئینہ ہے کہ جس کو سامنے رکھ کر ہم نکاح کے اس عظیم اور پرتقدس سلسلے کو آپ ﷺ کی سنت بناتے۔
افسوس کہ ہم نے زندگی کے ہر معاملے میں خود کو بس نام کا مسلمان ہونے کا ثبوت دیا ہے ہم نے زندگی کے ہر معاملے میں دین، اخلاقیات، روایتوں اور قانون کا دم گھونٹ دیاخودغرض سوچ اور مادی مفادات کو پورا کرنے کے لیے حرص و لالچ کے شرمسار ہتھکنڈے استعمال کیے ہیں ہمیشہ ہم نے اپنی ضروریات اپنی خواہشات اپنی ذات سے جڑے تمام تر خود غرضی کے مفادات کو پورا کرنے کے لیے حتہ الامکان کوششیں کی ہیں ہر پہلو سے خود کا سکون اور دوسروں کا استحصال یہاں لازم ہے اور شادی بھی یہاں بس دو خاندانوں کے درمیان ایک تجارت بزنس اور ایک مالی وابستگی کا ذریعہ بن چکی ہے۔
یہاں منہ مانگی خواہشات کی قیمت چکانی پڑتی ہے یہاں خود کو دوسروں کی سوچ کے مطابق ڈھالنا پڑتا ہے یہاں ہر ایک کی پسندیدگی کا بھرم رکھنا پڑتا ہے تب کہیں جا کر ہم کسی کے معیار پر پورا اترتے ہیں اور یہاں شادی صرف ایک فرد سے نہیں کی جاتی بلکہ پورا خاندان سے کی جاتی ہے اس پورے خاندان کی توقعات پر پورا اترنا پڑتا ہے۔
یہاں ہر لحاظ سے پرفیکٹ پارٹی ہی دوسری پارٹی کے اسٹینڈرز کا مقابلہ کرتی ہے ورنہ تو سینکڑوں قابل لوگ محض معمولی وجوہات کی بنا پر نہ صرف ریجیکٹ ہوتے ہیں بلکہ اچھی خاصی بےعزتی کا سامنا بھی کرتے ہیں۔ پاکستان کے اس معاشرے میں نہ صرف لوگ ذات کی حد تک محتاط ہیں بلکہ پچھلے سارے شجرہ نسب کی چھان بین کرتے ہیں اور گڑے مردے اکھاڑتے ہیں اور اپنے حسب و نسب کو بڑھ چڑھ کر دوسرے سے عالی ہونے کی مثالیں دیتے ہیں اور اگر یہاں دوسری پارٹی تگڑی ہے پھر اپنے ان سارے تحفظات کو سائیڈ پر رکھ دیا جاتا ہے یہ کہہ کر کہ ہم سب مسلمان ہیں اور زات پات میں کیا رکھا ہے اور اس طرح سے دوغلے رویے کو ظاہر کیا جاتا ہے۔
پاکستانی معاشرہ بہت اخلاقی تنزلی کا شکار ہے یہاں انسانیت سے زیادہ مادیت پرستی اہم ہے ذات پات حسب نسب اسٹیٹس ظاہری خدوخال اور تمام تر توقعات اور خواہشات کے عین مطابق ہونا ہی دوسرے شخص کو برابری کی سطح پر لا کر کھڑا کرتا ہے ورنہ بصورت دیگر تو انسان کہلانے کے لائق بھی نہیں رہتا۔
بعض حقائق تو ان سب سے بڑھ کر تلخ ہیں یہ بات اکثر مشاہدے میں آئی ہے کہ یہاں مرد حضرات صرف قربانی کے بکرے کے طور پر گردانے جاتے ہیں معاشرے میں مرد کا کردار بس ایک روبوٹ کی طرح ہے وہ گھر کے اندر اور باہر کے معاملات میں اپنا فیصلہ تو کیا رائے کا اظہار دینے کا بھی اہل نہیں ہے گھر کے تمام چھوٹے بڑے مسائل خواتین حل کرتی ہیں جس سے فیملی سسٹم اور سماج بہت منفی طور پر متاثر ہو رہے ہیں۔
یہاں باقی معاملات کی طرح نہ صرف اولاد کی شادی کے فیصلے ہی گھر کی خواتین طےکرتی ہیں بلکہ شادی کے بعد کے تمام معاملات بھی انہی کے زیرنگرانی حل پذیر ہوتے ہیں جس سے گھر اور خاندان کا تمام نظام زبردستی کی اس دھونس زدہ فضا میں معلق ہو کر رہ جاتا ہے جس سے یہی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ یہاں شادی صرف ایک شخص سے نہیں بلکہ ایک پورے فرسودہ روایتی سسٹم سے کی گئی ہے جہاں اکثر ایسے جملے سننے کو ملتے ہیں کہ جس طرح کی زندگی ہم نے گزاری ہے آنے والی کو بھی اسی طرح کی زندگی پر چلنا ہو گا۔
بیٹا ہمارا ہے ہم نے پیدا کیا ہے ہم نے پڑھایا لکھایا اور ایک خوبصورت اور قابل جوان بنایا اب بدلے میں اس بیٹے کو بھی قربانی کی بھینٹ چڑھنا ہوگا اور شادی وہیں ہوگی جہاں ہم چاہیں گے بہو ہماری مرضی سے آئے گی اور ہماری مرضی سے ہی ہمارے اصولوں پر چل کر اس گھر کا حصہ بنے گی اور اس سے حکم عدولی نافرمانی اور بغاوت ہوگی۔

