Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Xaha Islam
  4. Akhri Maseeha

Akhri Maseeha

آخری مسیحا

مجھے یاد ہے کہ یہ کرسمس کی ایک رات تھی اور بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح میں بھی کرسمس کے آخری لمحات کی خریداری کر رہا تھا۔ جب میں سردی میں چل رہا تھا تو ہوا کے جھونکے کے ساتھ گلی میں سے میں نے کسی کے کھانسنے کی آواز کو کچرے کے ڈبے اور عمارت کے درمیان میں سے سنا تھا اور جب میں اس کچرے کے ڈبے تک پہنچا تو میں نے دیکھا کہ ایک بوڑھا شخص چیتھڑوں میں ملبوس خود کو گرم رکھنے کی کوشش کر رہا ہے اس نے ایک پرانا کوٹ پہنا ہوا تھا جو بے حد گندا تھا اور جس کے سوراخوں کو اخبار کے ٹکڑے لگا کر بند کرنے کی کوشش کی گئی تھی تاکہ گرم رہا جا سکے اس کی پتلون مختصر اور سوراخوں سے بھری ہوئی تھی اس کے جوتوں کے تلوے نیچے سے گر چکے تھے اور اس کے بائیں پاؤں کا انگوٹھا اس کے پھٹے ہوئے جوتے کے سوراخ میں چپکا ہوا تھا۔ اس کے جسم کے گرد لپٹا ہوا وہ کمبل اس قدر گھسا پٹا تھا کہ آپ عملی طور پر اس کے آر پار دیکھ سکیں۔

جب میں حیرت سے دیکھ رہا تھا تو اس بوڑھے شخص نے اپنے زرد اور گندے چہرے کے ساتھ مجھے دیکھا اور اس کی آدھی بند آنکھیں تقریبا چمک اُٹھی تھیں اور اس کے بازو اس کے سینے سے یوں بڑھے تھے جیسے کسی مسیحا کی طرف لپکے ہوں مگر کچھ ساعتوں کے بعد اس نے اپنے بازو آہستہ آہستہ سے اپنے گرد حمائل کئے اور خود کو چھپانے کی کوشش کی جیسے کوئی امید جاگی تھی مگر نہ جانے کیوں فورا ہی سے وہ امید ختم ہو گئی ہو۔

اور کسی وجہ سے آج تک میں سمجھ نہ سکا کہ نہ جانے کیوں میں نے اپنا دایاں ہاتھ اس کی طرف بڑھایا تھا کہ وہ اسے تھام لے گا اور اس نے بھی میری طرف شکریہ کہنے کے انداز سے دیکھا تھا اور اس کی آنکھوں میں پھر سے ایک چمک تھی اور اس نے آہستہ سے میرا ہاتھ ایک تالی بجانے کے انداز سے تھام لیا تھا۔

میں نے محسوس کیا تھا کہ اس کا ہاتھ بہت منجمند اور سردی سے ٹھٹھرا ہوا تھا اور یوں میں ہڈیوں اور رگوں کا خاکہ دیکھ سکتا تھا میں نے اسے کھڑے اور چلنے میں مدد دینے کے لیے اپنا بازو اس کی پیٹ کے گرد حائل کیا تھا کیونکہ وہ اس قدر کمزور تھا کہ خود سے کھڑا ہونا اس کے لیے بہت مشکل تھا پھر میں نے اپنے جسم کو اس کی مدد کے لیے استعمال کیا اور ایک بار جب وہ کھڑا ہوا تو ہم چلنے لگے تھے کسی پناہ کی تلاش میں۔۔

تاکہ اس کے لیے کچھ کھانا گرم کپڑے اور رہنے کے لیے کوئی چھت مل سکے اور جیسے جیسے ہم چل رہے تھے میں نے بھوک سے اس کے پیٹ میں سے آنے والی آواز کو سنا تھا اور میں نے دیکھا کہ رات کے کھانے کا ہوٹل ابھی کھلا تھا ہوٹل کے اندر میں نے ایک کھلا بوتھ دیکھا جہاں کھا پی کر کچھ دیرآرام کر سکتے تھے۔

ویٹرس نے ہمیں بیٹھتے ہوئے دیکھا تو ہماری طرف چلی آئی اور ہم سے پوچھا کہ ہم کیا پسند کریں گے میں نے اسے ایک گرم پیالہ چکن سوپ اور دو گرم کافی کے کپ لانے کے لئے کہا تھا کہ اس سے اسے خود کو گرم رکھنے میں مدد مل سکے جب میں کافی کے گھونٹ لے رہا تھا تو میرے دماغ میں بہت سے سوالات گردش کر رہے تھے کہ وہ اس جگہ تک کیسے پہنچا جہاں وہ اب ہے؟ کیا وہ کسی کا باپ تھا؟ کیا وہ کسی کا بھائی ہے یا شوہر ہے یا کیا کسی کو اس کی پرواہ بھی ہوگی؟

میرے دماغ میں ہزاروں سوالات تھے اور اسی دوران میں اسے کھاتے ہوئے دیکھ رہا تھا اور اس کے چہرے پر ہزاروں رنگ دوڑ رہے تھے اور پھر ہم نے اپنا کھانا ختم کیا بل ادا کر کے ہم باہر کی جما دینے والی سردی میں واپس آ چکے تھے اور ہم پھر سے کسی پناہ گاہ کی تلاش میں تھے ہم زیادہ دور نہیں گئے تھے کہ اس بوڑھے آدمی نے سردی سے جمی اس گلی میں ایک چرچ کی طرف اشارہ کیا اور یوں میں اس کو لے کر اس چرچ کی طرف چل دیا چرچ میں داخل ہوتے ہوئے میں نے دیکھا کہ اس بوڑھے شخص نے 6 دروازے سے ملحقہ ہی مقدس پانی سے بھر ےایک پیالے میں اپنی انگلیاں ڈبو دیں اور ایک صلیب کا نشان بنایا اسے مدد دیتے ہوئے میں نے اور اس نے چرچ کے اندر جاکر ایک نشست اختیار کر لی تھی بوڑھے نے گھٹنے ٹیکتے ہوئے اپنے ہاتھ تھپتپھاۓ تھے آنکھیں بند کیں اور عبادت کے لیے آگے بڑھے۔

جب وہ عبادت کر رہا تھا تو میں نے بہت سے لوگوں کو اس کے اردگرد عبادت میں مصروف پایا۔ موم بتیاں جلا دی گئی تھی اور وہ ہلکی ہلکی ہوا میں یوں ہل رہی تھیں جیسے رقص کر رہی ہوں اور فضا میں ایک خوشبو سی بکھری تھی اور مختلف مدہم سی دھنوں نے دل کو مسرت اور روح کو خوشی سے بھر دیا تھا۔

ہمیں یاد دلانے کے لیے یہ ایک بہت ہی خاص دن تھا یہ عیسیٰؑ کی ولادت کا دن تھا اس کے جشن کا موقع۔ اور اسی اثناء میں میں نے بوڑھے شخص کو کھڑے ہونے کی کوشش کرتے ہوئے دیکھا اور پلٹ کر اسے سہارا دیا اسے چلنے میں مدد دیتے ہوئے میں پھر سے اطراف کے مسحورکن ماحول میں مصروف ہوگیا تھا کہ اچانک مجھے محسوس ہوا کہ بوڑھا شخص مجھ پر اپنی نظریں مرکوز کیے ہوئے ہے گویا کہ شکریہ کہہ رہا ہوں پھر اس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور خود کو مجھ سے آزاد کراتے ہوئے گہری نیند میں جا گرا چند منٹ بعد میں نے محسوس کیا کہ وہ سانس نہیں لے رہا تھا اور وہ بہت پرسکون نیند میں تھا مزید اب کوئی تشویش باقی نہ بچی تھی مزید کوئی بھوک بھی نہیں تھی نہ ہی کوئی پریشانی۔۔ بس امن ہی امن تھا۔

اس کا سر اب بھی میری گود میں تھا اور اس کا چہرہ بہت مطمئن تھا اس دوران میں نے پادری کو اپنے قریب محسوس نہ کیا آنسو بہاتے ہوئے جب پادری کی موجودگی کا احساس ہوا تو اندازہ ہوا کہ بوڑھا کس قدر بہتر جگہ پر تھا اور جب اس کے آخری حقوق ادا ہو رہے تھے تو مجھے یاد آیا کہ مجھے تو اس کا نام تک نہیں معلوم جب میں اس سے ملا تھا تو میں نے سوچا تھا کہ میں کھوئی ہوئی جان کی مدد کر رہا ہوں مگر پادری کو دیکھ کر میں نے جانا کہ بالآخر پادری ہی وہ آخری مسیحا تھا جو اس کھوئ ہوئ جان کی مدد کر رہا ہے مجھے یاد ہے جیسے کہ یہ کل کی بات ہو ہاں مجھے یاد ہے۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali