Kitabon Ki Ahmiyat Aur Parhne Ki Aadat Ka Fuqdan
کتابوں کی اہمیت اور پڑھنے کی عادت کا فقدان
کتابوں کا شمار انسان کی سب سے اہم اور قابل قدر دولت میں ہوتا ہے۔ یہ علم کا خزانہ ہیں، جو نسل در نسل منتقل ہوتا ہے اور ہر دور میں انسانوں کی فکری، اخلاقی اور روحانی ترقی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ کتابیں ہمیں صرف معلومات فراہم نہیں کرتیں بلکہ زندگی کے پیچیدہ مسائل کو سمجھنے، مختلف خیالات کو جاننے اور ذہنی افق کو وسیع کرنے میں بھی مدد دیتی ہیں۔ بدقسمتی سے، موجودہ دور میں پڑھنے کی عادت کم ہوتی جا رہی ہے اور لوگ کتابوں سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ اس کالم میں ہم کتابوں کی اہمیت اور پڑھنے کی عادت کے فقدان پر روشنی ڈالیں گے۔
کتابیں علم و حکمت کا سرچشمہ ہیں۔ ایک کتاب انسان کے اندر نیا شعور پیدا کرتی ہے، اسے غور و فکرکے نئے زاویے عطا کرتی ہے اور اس کی زندگی کے بارے میں سوچنے کا انداز بدل دیتی ہے۔ ہر کتاب اپنے اندر ایک دنیا سموئے ہوتی ہے، جہاں سے قاری کو نہ صرف علم ملتا ہے بلکہ وہ دیگر تہذیبوں، ثقافتوں اور زمانوں کے بارے میں بھی جانکاری حاصل کرتا ہے۔
علم کی فراہمی: کتابوں کے ذریعے انسان نے ماضی کے علوم، تحقیقات اور تجربات سے سیکھا ہے۔ یہ انسانیت کے لیے ایک زندہ میراث ہے جو ہمیں ماضی کے اسباق سے سیکھنے اور مستقبل کے لیے منصوبہ بندی کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔
کتابیں انسان کو محدود سوچ سے نکال کر وسیع ذہنی افق فراہم کرتی ہیں۔ ایک اچھی کتاب انسان کے سوچنے، سمجھنے اور مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت کو بہتر بناتی ہے۔ پڑھنے کے ذریعے انسان مختلف نقطہ نظر کو جانچتا ہے اور اپنی رائے کو بہتر طریقے سے قائم کرتا ہے۔
کتابیں مختلف تہذیبوں، ثقافتوں اور معاشرتی اقدار کا عکس ہوتی ہیں۔ یہ ہمیں مختلف معاشروں کی طرز زندگی، روایات اور رسم و رواج سے آشنا کرتی ہیں۔ اسی طرح، ادب ہمیں انسانی احساسات، جذبات اور تجربات کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔
اخلاقی اور روحانی تربیت: کتابیں اخلاقی تربیت اور روحانی بلندی کا ذریعہ بھی بنتی ہیں۔ بہت سی کتابیں انسانی رویوں، اعمال اور افکار کو بہتر بنانے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔ مذہبی کتابیں تو خاص طور پر انسان کی روحانی تربیت اور اخلاقی کردار کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
موجودہ دور میں جہاں ٹیکنالوجی نے ہماری زندگی کے ہر پہلو کو بدل کر رکھ دیا ہے، وہاں کتابوں کے مطالعے کی اہمیت کم ہوتی جا رہی ہے۔ لوگ تیز رفتار زندگی اور ڈیجیٹل مواد کی بھرمار میں اتنے مصروف ہو گئے ہیں کہ کتابیں پڑھنے کا وقت نکالنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اس رجحان کے کچھ اہم اسباب درج ذیل ہیں۔۔
اسمارٹ فونز، سوشل میڈیا، اور آن لائن مواد نے لوگوں کی توجہ کو تقسیم کر دیا ہے۔ ویڈیوز، آرٹیکلز، اور سوشل میڈیا پوسٹس تک فوری رسائی نے کتابوں کی جگہ لے لی ہے۔ مختصر اور تیز تر معلومات کی عادت نے لوگوں کو عمیق مطالعے سے دور کر دیا ہے۔
تعلیمی اداروں میں کتابوں سے محبت اور مطالعے کی عادت کو فروغ دینے کی بجائے، امتحانات کے لیے رٹا لگانے کا رجحان زیادہ فروغ پایا ہے۔ طلبہ کی تخلیقی صلاحیتوں کو نکھارنے اور ان میں مطالعے کا شوق پیدا کرنے کی بجائے، انہیں مخصوص نصاب تک محدود کر دیا جاتا ہے۔
آج کے مصروف معاشرتی اور پیشہ ورانہ ماحول میں لوگوں کے پاس کتابیں پڑھنے کا وقت کم ہوتا جا رہا ہے۔ مہنگائی، روزگار کے مسائل، اور تیز زندگی کی رفتار نے افراد کو کتابوں سے دور کر دیا ہے۔
ہمارے معاشرتی رویے بھی پڑھنے کی عادت کے فقدان میں حصہ ڈالتے ہیں۔ جہاں ٹیلی ویژن، فلمیں اور دیگر تفریحی ذرائع کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے، وہاں کتابیں پڑھنا "پرانی" عادت سمجھا جاتا ہے۔ لوگوں کو یہ لگتا ہے کہ مطالعہ وقت کا ضیاع ہے، جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔
پڑھنے کی عادت کو دوبارہ زندہ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ انسان کی فکری ترقی اور معاشرتی بہتری کے لیے ناگزیر ہے۔ مطالعہ نہ صرف فرد کی شخصیت کو سنوارتا ہے بلکہ معاشرتی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس عادت کی بحالی کے لیے چند اقدامات درج ذیل ہو سکتے ہیں۔۔
والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں میں مطالعے کی عادت کو فروغ دیں۔ کتابیں بچوں کے لیے تحفے کے طور پر دیں اور انہیں روزانہ کچھ وقت مطالعے کے لیے مخصوص کرنے کی ترغیب دیں۔
اسکولوں اور کالجوں میں کتابوں کے مطالعے کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔ لائبریریوں کی ترقی، مطالعاتی نشستیں اور کتابی میلوں کا انعقاد اس سمت میں مفید ثابت ہو سکتا ہے۔
معاشرتی سطح پر کتابوں کو ایک مثبت سرگرمی کے طور پر فروغ دینا چاہیے۔ ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا پر کتابوں کے بارے میں گفتگو کو عام کیا جائے اور مطالعے کی اہمیت پر زور دیا جائے۔
کتابیں ہماری زندگی کا ایک اہم حصہ ہیں اور ان کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ مطالعے کی عادت ہمیں ایک بہتر، علم دوست اور فکری طور پر مضبوط معاشرہ فراہم کر سکتی ہے۔ اگرچہ ڈیجیٹل دور نے ہمیں کتابوں سے دور کر دیا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم ان کی اہمیت کو فراموش کر دیں۔ ہمیں بحیثیت فرد اور بحیثیت معاشرہ اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ کتابوں سے ہمارا رشتہ مضبوط رہے اور آنے والی نسلیں بھی ان کے علم و حکمت سے مستفید ہو سکیں۔