Jamhuriat Aur Aamriyat Ka Tasadum
جمہوریت اور آمریت کا تصادم
پاکستان کی تاریخ میں جمہوریت اور آمریت کے درمیان تصادم ایک پرانا مسئلہ رہا ہے جس نے اس ملک کی سیاست، معیشت اور معاشرت پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک مختلف ادوار میں ملک نے جمہوری حکومتوں اور فوجی آمریت کے دور دیکھے ہیں اور ان دونوں نظاموں کے درمیان کھینچا تانی نے ملکی استحکام کو ہمیشہ متاثر کیا ہے۔
قیامِ پاکستان کا خواب ایک آزاد، خودمختار اور جمہوری ریاست کا خواب تھا۔ قائداعظم محمد علی جناح نے ہمیشہ جمہوریت اور عوامی نمائندگی کی بات کی، اور اُن کا یہ خیال تھا کہ پاکستان میں جمہوریت ہی اصل طاقت ہوگی۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ خواب مختلف وجوہات کی بنا پر حقیقت میں تبدیل نہیں ہو سکا۔
پاکستان میں جب بھی جمہوری نظام قائم ہوا، اس کے ساتھ ہی سیاسی جماعتوں میں اختلافات اور بے یقینی کی کیفیت نظر آئی۔ کئی مرتبہ جمہوری حکومتیں اپنی مدت پوری کرنے سے پہلے ہی غیر یقینی حالات کی نذر ہوگئیں۔ اس کے نتیجے میں عوام کے اندر جمہوریت کے حوالے سے بدگمانیاں پیدا ہوئیں اور آمریت کو ایک متبادل کے طور پر پیش کیا جانے لگا۔
پاکستان میں پہلا مارشل لا 1958 میں لگایا گیا جب صدر اسکندر مرزا نے جمہوری حکومت کا خاتمہ کرکے فوج کو اقتدار سونپ دیا۔ اس کے بعد ایوب خان، ضیاء الحق، اور پرویز مشرف جیسے فوجی حکمرانوں نے ملک پر حکومت کی۔ ان آمریت کے ادوار میں ملک نے بعض معاشی اور انفراسٹرکچر کے میدانوں میں ترقی تو ضرور کی، مگر سیاسی اور جمہوری اعتبار سے ملک پیچھے چلا گیا۔
آمریت کے دور میں میڈیا پر پابندیاں لگائی گئیں، آزاد صحافت کا گلہ گھونٹا گیا، اور سیاسی جماعتوں کو دبایا گیا۔ عوام کے پاس اپنی آواز بلند کرنے کے مواقع محدود ہوگئے اور اس کے ساتھ ہی سیاسی شعور کی کمی پیدا ہوئی۔
ہر نظام کے اپنے فوائد اور نقصانات ہیں۔ جمہوریت میں عوام کو منتخب کرنے کا اختیار ہوتا ہے، ان کے پاس اپنے حقوق کے تحفظ کی ضمانت ہوتی ہے، اور ایک طاقتور پارلیمان کے ذریعے عوامی فلاح کی کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں جمہوریت کے ساتھ کرپشن، اقربا پروری، اور سیاسی عدم استحکام جڑ پکڑ چکے ہیں، جس کی وجہ سے عوام کو اس نظام سے بددل ہونا پڑا ہے۔
دوسری طرف آمریت کے ادوار میں ملکی سلامتی اور معیشت کے حوالے سے کچھ بہتر فیصلے ہوئے، مگر عوامی حقوق اور آزادی پر قدغنیں بھی لگیں۔ آمریت میں فوری فیصلے کیے جاتے ہیں، مگر عوام کی آواز اور ان کے مسائل کو دبانے کی روایت بھی جڑ پکڑ لیتی ہے۔
جمہوریت اور آمریت کے اس تصادم نے ملک کو اندرونی اور بیرونی طور پر کمزور کیا ہے۔ جمہوری حکومتیں جب بھی مستحکم ہونے لگتی ہیں تو مختلف ادارے ان پر تنقید کرتے ہیں اور ان کی کمزوریوں کو نمایاں کرتے ہیں، جس سے ایک جمہوری عمل کا تسلسل برقرار نہیں رہ پاتا۔ عوام کو بھی یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ ان کے مسائل کا حل صرف آمریت میں ہے، حالانکہ حقیقت میں جمہوریت کے بغیر ایک ترقی یافتہ اور مضبوط پاکستان کا خواب پورا نہیں ہو سکتا۔
پاکستان میں جمہوریت کو مستحکم کرنے اور آمریت کے خطرے سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ تمام ادارے اپنی حدود میں رہ کر کام کریں۔ پارلیمان، عدلیہ، اور فوج کو مل کر ملک کی بہتری کے لیے کام کرنا ہوگا۔ عوامی نمائندوں کو بھی چاہیے کہ وہ کرپشن اور اقربا پروری کو ترک کریں اور ملک و قوم کی خدمت کے جذبے کے تحت کام کریں۔
پاکستان کا روشن مستقبل صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب جمہوریت کو فروغ دیا جائے اور عوام کو ان کے حقوق فراہم کیے جائیں۔ آمریت کے وقتی فوائد تو ضرور ہو سکتے ہیں مگر جمہوری نظام کے ذریعے ہی ملک کی مستقل ترقی اور خوشحالی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ایک مستحکم جمہوری نظام کی بنیاد رکھیں جس میں عوام کی آواز کو اہمیت دی جائے اور ان کے مسائل کو حل کیا جائے۔