Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Wasif Khaliq Dad
  4. Ikhtilaf e Raye Aur Khamosh Aziyat

Ikhtilaf e Raye Aur Khamosh Aziyat

اختلافِ رائے اور خاموش اذیت

ہمارا معاشرہ کئی چھپے ہوئے مسائل کا شکار ہے۔ ان میں سے ایک مسئلہ اتنا خاموش ہے کہ اکثر نظر ہی نہیں آتا، لیکن اس کے اثرات بہت گہرے ہیں۔ یہ ہے ہر حال میں دوسروں سے اتفاق کرنے کا دباؤ۔ چاہے بات خاندان کی ہو، دوستوں کے حلقے کی یا دفتر کے ماحول کی، اکثر لوگوں کی یہ خواہش یا توقع ہوتی ہے کہ سب ان کی رائے سے متفق ہوں۔ اگر کوئی شخص ہمت کرکے مختلف انداز میں سوچے یا سوال اٹھائے تو اس پر فوراً تنقید شروع ہو جاتی ہے۔ بعض اوقات اسے گستاخ، بے ادب یا بے وفا تک قرار دے دیا جاتا ہے۔

یہ رویہ بظاہر معمولی لگتا ہے، لیکن حقیقت میں یہ انسانوں کی ذہنی سکون اور تعلقات کی بنیاد کو ہلا دیتا ہے۔ کئی لوگ صرف اس خوف سے اپنی اصل رائے ظاہر نہیں کرتے کہ کہیں تعلق خراب نہ ہو جائے۔ وہ خاموش رہنا زیادہ آسان سمجھتے ہیں۔ لیکن یہ خاموشی اندر ہی اندر جذباتی دباؤ پیدا کرتی ہے۔ ایسے لوگ ایک وقت کے بعد احساسِ محرومی، مایوسی اور تنہائی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ان کے تعلقات اوپر سے تو قائم رہتے ہیں، مگر اندر سے کھوکھلے ہو جاتے ہیں۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اختلافِ رائے معاشرے کی نشوونما کے لیے ضروری ہے۔ اگر سب ایک ہی طرح سوچیں تو نئے خیالات کیسے جنم لیں گے؟ ترقی کی راہیں کیسے کھلیں گی؟ بدقسمتی سے ہم نے اختلاف کو دشمنی بنا لیا ہے۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہر انسان کے تجربات، مشاہدات اور سوچنے کے زاویے مختلف ہیں۔ اگر یہ سب ایک دوسرے سے شیئر کیے جائیں تو ہی معاشرہ مضبوط ہوگا۔ لیکن جب ہم دوسروں پر اپنی رائے تھوپنے لگتے ہیں تو دراصل ہم ان کی انفرادیت اور عزتِ نفس کو کچلتے ہیں۔

یہ رویہ ہمارے گھروں میں سب سے زیادہ نظر آتا ہے۔ والدین اکثر چاہتے ہیں کہ بچے ان کے ہر فیصلے سے اتفاق کریں، چاہے وہ کیریئر کا ہو یا ذاتی زندگی کا۔ اگر بچہ اپنی خواہش ظاہر کرے تو اسے نافرمان کہہ دیا جاتا ہے۔ دوستوں کے درمیان بھی یہی ہوتا ہے، اگر ایک دوست باقیوں سے مختلف رائے دے تو وہ "مخالفت برائے مخالفت" کرنے والا سمجھا جاتا ہے۔ دفاتر میں بھی اکثر باس یا سینئرز یہ توقع رکھتے ہیں کہ سب ان کی بات کو حرفِ آخر سمجھیں، ورنہ تنقید اور سزا کے لیے تیار رہیں۔ یہ سب رویے مل کر معاشرے میں ایک خوف پیدا کر دیتے ہیں، اختلاف کرنے کا خوف۔

درحقیقت، حقیقی تعلق وہ ہے جو برداشت اور سمجھ بوجھ پر قائم ہو، نہ کہ زبردستی کی ہم آہنگی پر۔ کسی رائے سے اختلاف کرنا بے وفائی نہیں ہوتا اور نہ ہی کسی کی بات مان لینا ہمیشہ محبت کی علامت ہوتا ہے۔ تعلقات اس وقت مضبوط ہوتے ہیں جب لوگ ایک دوسرے کو کھل کر اپنی سوچ بیان کرنے کی آزادی دیں اور سننے کا حوصلہ رکھیں۔

ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ "درست" ہونے سے زیادہ اہم "مہربان" ہونا ہے۔ اکثر لوگ اپنی رائے کو درست ثابت کرنے کی ضد میں بحث کو تلخ کر دیتے ہیں۔ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ ان کا جارحانہ رویہ نہ صرف گفتگو کا ماحول خراب کرتا ہے بلکہ اعتماد اور قربت کو بھی توڑ دیتا ہے۔ ایک لمحے کی سخت بات تعلقات کی بنیاد کو ہلا دیتی ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ایسے معاشرتی ماحول کو فروغ دیں جہاں اختلاف کو برداشت کیا جا سکے۔ جہاں لوگ اپنی رائے بلا خوف ظاہر کر سکیں اور دوسروں کی رائے کو بھی عزت دیں۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم برداشت، رواداری اور جذباتی ذہانت کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں۔ اگر یہ نہ ہوا تو معاشرہ خاموش اذیت میں گھلتا رہے گا اور انسان ایک دوسرے سے کٹتے جائیں گے۔

یاد رکھیے: اختلاف کوئی جرم نہیں، بلکہ صحت مند معاشرے کی علامت ہے۔ اصل سوال یہ نہیں کہ کون درست ہے، بلکہ یہ ہے کہ ہم دوسروں کو سننے اور سمجھنے کا حوصلہ رکھتے ہیں یا نہیں۔ اگر ہم نے یہ حوصلہ پیدا کر لیا تو تعلقات مضبوط ہوں گے، دل قریب آئیں گے اور معاشرہ واقعی ترقی کی طرف بڑھے گا۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam