Mere Kooza Gar
میرے کوزہ گر
زندگی میں کچھ اساتذہ سے گہرے اثرات قبول کیے اور کچھ نے بہت متاثر کیا۔ میرا بچپن جس ٹیچر کے سائے میں گزرا وہ میری بڑی بہن تنویرقیوم ہیں، جنھیں میں آپی کہتا ہوں۔ جس پرائمری اسکول میں میری ابتدائی تعلیم ہوئی آپی وہاں ہیڈمسٹریس تھیں، ان کی جس تعلیم نے مجھ پر اثرات مرتب کیے وہ اسکول نہیں گھر پر ملی، سیاسی شعور کی صورت میں۔
یہ سبق مجھے انھوں نے ہی دیا کہ "کسی ملک میں آئین اور جمہوریت کا نہ ہونا اس ملک کے لیے ذلت اور بدنامی کا باعث ہے" پھاؤڑے اور بیلچے اٹھائے سڑک سے گزرتے مزدوروں کو دیکھ کر انھوں نے مجھے سمجھایا "یہ ہے اصل عوام"، وہ کہانی کی کتابیں لاتی، پڑھ کر سناتی اور میری اردو سنوارتی رہیں۔
ہائی اسکول میں قدم رکھا تو نیر اقبال صدیقی صاحب کی صورت میں ایک نہایت شفیق استاد سے واسطہ پڑا۔ وہ کلاس میں آ کر سبق رٹوانے کے چلن سے ناآشنا تھے۔ وہ نصاب سے ہٹ کر کتنی ہی معلومات سے اپنے شاگردوں کو فیض یاب کرتے، وہ "پڑھاتے" نہیں تھے، باتیں کرتے تھے اور باتوں باتوں میں سب پڑھا دیتے تھے، صاف لگتا تھا کہ وہ ملازمت نہیں کر رہے تدریس سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ انھوں نے جو مضمون پڑھایا مجھے اس میں دل چسپی پیدا ہو گئی، انھوں نے میرا بہت حوصلہ بڑھایا۔
جامعہ ملیہ کالج میں قابل اساتذہ کی کہکشاں جگمگا رہی تھی، لیکن اس میں جاکھرانی صاحب الگ ہی دمکتے تھے، اپنے فرض سے وابستگی کا یہ عالم تھا کہ کلاس روم سے باہر ادھر اُدھر کھڑے طلبہ کو ڈانٹ کر اور ہاتھ پکڑ کر کلاس میں لے جاتے اور پڑھاتے، کبھی کبھی اپنے نرم ملائم ہاتھ سے تھپکی نما تھپڑ بھی لگا دیتے تھے۔ اردو کے استاد عبدالرحمٰن صاحب کا لیکچر شروع ہوتا تو دل چاہتا کبھی ختم نہ ہو، ایک ایک شعر کے جانے کتنے معنی بیان کر جاتے، تصوف سے لتا کے گانوں تک جانے کہاں کہاں سے معنی لا کر ہمیں شعر سمجھانے کے جتن کرتے، اور پھر ان کا ستھرا لب و لہجہ۔
عملی زندگی میں آنے کے بعد جس استاد نے متاثر بھی کیا اور گہرے اثرات بھی مرتب کیے وہ ہیں محترم احفاظ الرحمٰن۔ صحافت کے رموز، زبان کے اسرار تو ان سے سمجھے ہی، تاریخ، سیاست، فلم، موسیقی کے کتنے ہی پہلو بھی ان کی صحبت میں آشکار ہوئے، کتابیں پڑھنے کے شوق کو انھوں نے جنون بنا دیا، وہ اپنی علمیت مسلط نہیں کرتے تھے، لیکن کتابوں، تاریخ، فلموں اور آرٹ کے تذکرے یوں چھیڑتے کہ مجھ جیسا شاگرد کم مائیگی کے گراں قدر احساس سے بھر جاتا۔ اتنا ہی نہیں، احفاظ صاحب نے مجھے لوگوں کو سمجھنا اور برتنا بھی سکھایا۔
ان سب اساتذہ کو سلام۔
ارے یاد آیا، ایک اور ٹیچر بھی تھیں، پرائمری اسکول میں، پھوار سے سندھی لہجے میں اردو بولتی، سرتاپا شفقت اور محبت۔
وہ بس بہت اچھی لگتی تھیں۔