Urdu Bolne Walon Ki Tehzeeb Aur Karachi Ka Muhajir Culture
اردو بولنے والوں کی تہذیب اور کراچی کا مہاجر کلچر
اپنے سے کسی بڑے کو گلی میں آتا دیکھ کر سگریٹ کو چھپا دینا اردو بولنے والوں کی روایت اور اپنے سے اسی بڑے کو اس لئے تھپڑ جڑ دینا کہ اس نے الطاف حسین کا نام بھائی کے بغیر کیوں لیا، ایم کیو ایم والوں کا کلچر تھا اور اردو بولنے والوں کا سب سے بڑا المیہ ہی یہ ہوا کہ ایم کیو ایم کے مہاجر کلچر نے لکھنو اور دلی کی تہذیبی روایتوں کو تباہ و برباد کردیا۔
منہ میں گٹکا دبائے اور اِدھر اُدھر پچکاریاں مارنا ایم کیو ایم کا مہاجر کلچر ہے، جبکہ اردو بولنے والے پاندان اور اگالدان کے ساتھ پان کھانے کا اپنا کلچر لائے تھے، جنہیں ایم کیو ایم کے مہاجر زادوں نے مین پوری اور ماوے سے بدل دیا، اردو بولنے والوں کی سب سے خاص بات ان کی برداشت کی صلاحیت تھی اور ایم کیو ایم کے مہاجر کلچر میں ہم نے دیکھا کہ ایک بار صولت مرزا کی گاڑی سے ایک دوسری گاڑی تیز رفتاری سے آگے نکل گئی تو بھائی کو طیش آیا اور وہ اس کے تعاقب میں گئے اور اسے گولی مار کر قتل کردیا۔
اردو بولنے والوں کی ایک اور خاص بات علم حاصل کرنے کی ان کی جستجو تھی، ایم کیو ایم نے ایک نیا فارمولا پیش کیا کہ نقل کرکے ڈگری حاصل کرو اور نوکریاں ملیں گی، لاکھوں کی تعداد میں گریجویشن کی ڈگریاں اردو بولنے والے نوجوانوں میں بانٹی بھی گئیں، ہزاروں کو شپ یارڈ، واٹر بورڈ اور کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن جیسے مختلف اداروں میں کھپایا بھی گیا مگر نقل سے پاس ہونے والے صلاحیتوں سے محروم تھے، وہ سرکاری اداروں پر بھی ایک بوجھ بن کر رہ گئے ہیں۔
لسانی سیاست کیسے ایک کمیونٹی کو تباہ کرسکتی ہے، کراچی اور حیدرآباد کے اردو بولنے والوں کا حال دیکھ لیں، بے شک لسانی سیاست نے ہم اردو بولنے والوں کو نشان عبرت بنادیا ہے اور لسانی سیاست کی سلگتی چنگاریاں اب بھی کبھی حافظ نعیم تو کبھی مصطفی کمال سلگانے کی کوشش کررہے ہیں کہ رہی سہی کسر بھی نکل جائے۔
اردو بولنے والوں کی بقا وفاقی سیاسی جماعتوں کے ساتھ کھڑے ہونے میں ہے، کراچی اور حیدرآباد کے اردو بولنے والوں کی ترقی سندھ کے مستقبل سے وابستہ ہے، خود کو الگ تھلگ کرکے ایک دائرے میں قید کرنے کا خود اردو بولنے والوں کو نقصان ہوگا، اردو بولنے والی آبادیوں کے مسائل کا بڑی حد تک تعلق مسئلے کے حل سے متعلق اپروچ سے ہے کہ لسانیت کے نام پر ووٹ دے کر مسائل کے حل کی توقع کسی دوسرے سے رکھنا غیرحقیقی اپروچ ہے، اردو بولنے والوں کے منتخب لسانیت پرست نمائندے کسی دوسرے کو کریڈٹ نہ دینے کے چکر میں خود اردو بولنے والی آبادیوں کے مسائل کے حل میں سب سے بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔