Supreme Court Ke Teen Judges Ka Conduct
سپریم کورٹ کے 3 ججز کا کانڈکٹ
جج اور ان کے خاندانوں کی سیاسی وابستگی اس حد تک عیاں ہو رہی ہے کہ سوشل میڈیا پر عام لوگ اس معاملے پر گفتگو کر رہے ہیں، اعزاز سید کا میری گزشتہ روز عمر عطاء بندیال اور سحر بندیال کے حوالے سے پوسٹ پر تبصرہ۔ زبان خلق نقارہ خدا ہوتی ہے، اب یہ قصے زبان زدِ عام ہیں کہ ججوں کے فیصلوں پر میڈیا اثرانداز ہوتا ہے جبکہ ججوں کا میڈیا دیکھنا کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی ہے مگر حال یہ ہے کہ جج اپنے ریمارکس میں بتاتے ہیں کہ میڈیا میں کیا چل رہا ہے، ایسی صورت میں ججوں کے فیصلوں اور ان کے کردار پر سوال تو ہوں گے۔
جہاں تک موجودہ صورت حال ہے تو اسمبلیوں کی تحلیل کے 90 دن میں الیکشن ہونا چاہئے مگر پہلے اسمبلیوں کی تحلیل کا معاملہ تو طے کیا جائے، دنیا میں کون سی عدالت اسمبلیاں تحلیل کرواتی ہے؟ وہ وقت آ چکا ہے کہ پنجاب اور خیبر پختونخواء میں اسمبلیاں تحلیل کرنے میں کردار ادا کرنے والے ججوں کو سزائیں ہوں تاکہ آئندہ کوئی جج پارلیمان کے امور میں مداخلت کی جرات نہ کر سکے۔
جب پنجاب اور خیبر پختونخواء اسمبلیوں کی تحلیل کا معاملہ ہی آئینی طور پر متنازع ہے تو ایسے میں اسمبلیوں کی تحلیل کو بہانہ بنا کر انتخابات کے انعقاد کے لئے ازخود نوٹس لینا ججوں کے مخصوص ٹولے کی جانب سے آئین پر حملہ ہے، اس ازخود نوٹس کو بھی چار اکثریتی ججوں نے متنازع فیصلوں کی وجہ سے ناقابل سماعت قرار دیا تو ایسے میں تین ججوں کی ہٹ دھرمی عدلیہ کے ساتھ کھلا مذاق ہے، ازخود نوٹس کی آڑ میں ہم خیال بینچ پر مشتمل امر، اکبر اور انتھونی دراصل سپریم کورٹ میں بیٹھ کر عمران خان کی سیاسی کمپین چلا رہے ہیں۔
سپریم کورٹ کے تھری ایڈیٹس اپنے متنازع فیصلوں کی وجہ سے عدلیہ کی ساکھ کو زبردست نقصان پہنچا رہے ہیں، ایسے ہی ججوں نے ماضی میں ڈکٹیٹروں کی آئین شکنی کو جواز فراہم کیا، یہ وہی سپریم کورٹ ہے جو قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو کے قتل کا کرائم سین ہے، اسی عدالت نے اخباری خبر کی بنیاد پر شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت برطرف کی، آئین پر عمل کرنے کی پاداش میں سید یوسف رضا گیلانی کو وزارت عظمیٰ کے منصب سے ہٹا دیا، اگر اب بھی ان موٹی توند اور اکڑی گردن والوں کو لگام نہ ڈالی گئی تو یہ سانڈ پورا کھلیان تہس نہس کر دیں گے۔